Blog
Books
Search Hadith

نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا اپنے صحابہ کو فتنوں کے دور میں ان سے اجتناب کرنے کی وصیت کرنے اور اس وقت کی خیر والی چیز کی رہنمائی کرنے کا بیان

۔ (۱۲۸۱۸)۔ وَعَنِ الْحَسَنِ عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِیْرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ :صَحِبْنَا النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَسَمِعْنَاہُ یَقُوْلُ: ((اِنَّ بَیْنَیَدَیِ السَّاعَۃِ فِتَنًا کَقِطَعِ اللَّیْلِ الْمُظْلِمِ، یُصْبِحُ الرَّجُلُ فِیْہَا مُؤْمِنًا یُمْسِیْ کَافِرًا وَیُمْسِیْ مُوْمِنًا ثُمَّ یُصْبِحُ کَافِرًا، یَبِیْعُ اَقْوَامٌ خَلَاقَہُمْ بِعَرَضِ مِنَ الدُّنْیَایَسِیْرٍ اَوْ بِعَرَضِ الدُّنْیَا۔)) قَالَ الْحَسَنُ: وَاللّٰہِ لَقَدْ رَاَیْنَاھُمْ صُوَرًا وَلَاعُقُوْلَ، اَجْسَامًا وَلَااَحْلَامَ فِرَاشَ نَارٍ،وَ ذَبَّانَ طَمْعٍ، یَغْدُوْنَ بِدِرْھَمَیْنِ وَیَرُوْحُوْنَ بِدِرْھَمَیْنِیَبِیْعُ اَحَدُھُمْ دِیْنَہٗ بِثَمَنِ الْعَنْزِ۔ (مسند احمد:۱۸۵۹۴ )

سیدنانعمان بن بشیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے ،وہ کہتے ہیں: ہم نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ رہے ہیں، ہم نے آپ کو یہ فرماتے ہوئے سنا : قیامت سے پہلے اندھیری رات کے ٹکڑوں کی طرح فتنے چھا جائیں گے، (حالات اس قدر شدید ہوں گے کہ) آدمی صبح کے وقت مومن اور شام کو کافر یا شام کے وقت مومن اور صبح کو کافر ہوچکا ہوگا، لوگ دنیا کے معمولی سامان کے عوض اپنا حصہ (دین) بیچ دیں گے۔ حسن کہتے ہیں: اللہ کی قسم! ہم نے ایسے لوگ دیکھے ہیں، ان کی صورتیں تو انسانوں جیسی ہیں، مگر عقل سے کورے ہیں اور ان کے جسم تو ہیں‘ لیکن سمجھ بوجھ سے عاری ہیں، وہ آگ کے پروانو ں کی طرح بے عقل اور مکھیوں کی طرح حریص ہیں، وہ دو درہم صبح کو لیتے ہیں اوور دو درہم شام کو اور ایک بکری کی قیمت کے عوض میں اپنے دین کو بیچ دیتے ہیں۔
Haidth Number: 12818
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۲۸۱۸) تخریج: صحیح لغیرہ، أخرجہ الطبرانی فی الاوسط : ۲۴۶۰، والحاکم: ۳/ ۵۳۱ (انظر: ۱۸۴۰۴)

Wazahat

فوائد:… جامع ترمذی کی روایت میں ان فتنوں سے پہلے پہلے عمل کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ بوقت ِ صبح مومن اور شام کو کافر… اس کا مفہوم یہ ہے کہ صبح کو ایمان سے متصف ہو گا اور اعمال صالحہ سے مزین گا، لیکن شام کو کفر کی دلدل میںپھنسا ہوااور کفریہ اعمال کرتا ہوا نظر آئے گا اور یہ معنی بھی کیا گیا ہے صبح کو اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزوں کو حرام سمجھے گا، لیکن شام کو ان کو حلال تصور کرے گا۔ مطلب یہ ہے کہ حالات ایسا رخ اختیار کرلیں گے کہ انسان کو اپنے بدل جانے کی کوئی سمجھ نہیں آئے گی، اس معاملے میں وہ لا شعوری کا اظہار کرے گا۔ اب ایسے ہو رہا ہے کہ ایک انسان اچھا بھلا نیک پرہیزگار نظر آتا ہے، لیکن کچھ دنوں کے بعد جب اس سے ملاقات ہوتی ہے تو اس کی روحانی کیفیت بگڑ چکی ہوتی ہے اور نماز جیسے فریضے کو ترک کر چکا ہوتا ہے، کوئی سود کھانے کی وجہ سے گر چکا ہو تا ہے تو کسی سے اچانک قتل ہو جاتا ہے، کوئی دوسرے خاندان کی بچی کی حرمتوں کو پامال کرنے کی کوشش کرتا ہے تو کوئی دوسرے کے مال کو ہڑپ کر جانے کی سوچ رہا ہوتا ہے۔ تاجروں کو کوئی شعور نہیں کہ ان کی تجارت شرعی اصولوں پر مبنی ہے یا نہیں، اپریل ۲۰۰۹ ء کی بات ہے کہ ایک تاجر نے ایک شرعی قاعدے کو نظر انداز کر کے سودا کیا، اسے اس وجہ سے دو دنوں کے اندر اڑتالیس لاکھ روپے کا نقصان ہوا۔ خلاصۂ کلام یہ ہے کہ لوگ دنیا میں بہت زیادہ دلچسپی لینے والے اور اس کے حریص ہوں گے اور ان کے دینی معاملات بگڑ جائیں گے۔