Blog
Books
Search Hadith

اس جہت کا ذکر جدھر سے فتنے آئیں گے، نیز خوارج‘ حروریہ اور روافض کا بیان

۔ (۱۲۸۲۶)۔ (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ خَامِسٍ) قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((تَجِیْ ئُ الْفِتْنَۃُ مِنْ ھٰہُنَا مِنَ الْمَشْرِقِ۔)) (مسند احمد: ۴۷۵۴)

۔ (پانچویں سند) رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: فتنے یہاں سے یعنی مشرق کی طرف سے آئیں گے۔
Haidth Number: 12826
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۲۸۲۶) تخریج: انظر الحدیث بالطریق الاول

Wazahat

فوائد:… مشرق سے مراد عراق ہے، بعض روایات میں عراق کا تعین کیا گیا ہے، جیسا کہ درج ذیل احادیث ہیں: سیدنا عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دعا کی اور فرمایا: ((اَللّٰھُمَّ بَارِکْ لَنَا فِي مَکَّتِنَا، اَللّٰھُمَّ باَرِکْ لَنَا فِي مَدِیْنَتِنَا، اَللّٰھُمَّ بَارِکْ لَنَا فِي شَامِنَا، وَبَارِکْ لَنَا فِي صَاعِنَا، وَباَرِکْ لَنَا فِي مُدِّنَا۔)) فَقَالَ رَجُلٌ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! وَفِي عِرَاقِنَا۔ فَاعْرَضَ عَنْہُ، فَرَدَّدَھَا ثَلَاثاً، کُلَّ ذٰلِکَ یَقُوْلُ الرَّجُلُ: وَفِیْ عِرَاقِنَا، فَیُعْرِضُ عَنْہُ، فَقَالَ: ((بِھَا الزَّلَازِلُ وَالْفِتَنُ وَفِیْھَا یَطْلُعُ قَرْنُ الشَّیْطَانُ۔)) … اے اللہ! ہمارے مکہ میں ہمارے لیے برکت فرما۔ اے اللہ! ہمارے مدینہ میں ہمارے لیے برکت فرما۔ اے اللہ! ہمارے شام میں ہمارے لیے برکت فرما۔ اے اللہ! ہمارے صاع میں ہمارے لیے برکت فرما۔ اے اللہ! ہمارے مدّ میں ہمارے لیے برکت فرما۔ ایک آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول! اور ہمارے عراق میں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے منہ پھیر لیا۔ اس نے تین دفعہ کہا کہ ہمارے عراق میں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہر دفعہ اعراض کیا۔ پھر فرمایا: یہاں تو زلزلے اور فتنے ہوں گے اور یہاں سے شیطان کے سر کا کنارہ ابھرے گا۔ (أخرجہ الطبرانی فی المعجم الاوسط : ۱/ ۲۴۶/ ۱/ ۴۲۵۶، وبلفظ: نجدنا مکان عراقنا أخرجہ البخاری: ۱۰۳۷، ۷۰۹۴، الصحیحۃ:۲۲۴۶) معجم اوسط کی ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں: جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے عراق کا نام لے کر اس کے لیے دعا کا مطالبہ کیا گیا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ((مِنْ ثَمَّ یَطْلُعُ قَرْنُ الشَّیْطَانِ وَتَھِیْجُ الْفِتَنُ۔)) … وہاں سے تو شیطان کا سینگ نمودار ہو گا اور فتنے ابلیں گے۔ صحیح بخاری کی روایت کے الفاظ درج ذیل ہیں: سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ((اللَّہُمَّ بَارِکْ لَنَا فِی شَأْمِنَا اللَّہُمَّ بَارِکْ لَنَا فِی یَمَنِنَا قَالُوا یَا رَسُولَ اللَّہِ وَفِی نَجْدِنَا قَالَ اللَّہُمَّ بَارِکْ لَنَا فِی شَأْمِنَا اللَّہُمَّ بَارِکْ لَنَا فِی یَمَنِنَا قَالُوا یَا رَسُولَ اللَّہِ وَفِی نَجْدِنَا فَأَظُنُّہُ قَالَ فِی الثَّالِثَۃِ ہُنَاکَ الزَّلَازِلُ وَالْفِتَنُ وَبِہَا یَطْلُعُ قَرْنُ الشَّیْطَانِ۔)) … یا اللہ! ہمارے شام میں برکت عطا فرمایا،اے اللہ! ہمارے یمن میں برکت عطا فرما۔ لوگوں نے کہا: اور ہمارے نجد میں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یا اللہ! ہمارے شام میں برکت عطا فرمایا، اے اللہ! ہمارے یمن میں برکت عطا فرما۔ لوگوں نے کہا: یا رسول اللہ! اور ہمارے نجد میں، میرا خیال ہے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تیسری بار فرمایا: یہاں تو زلزلے اور فتنے ہوں گے اور وہیں سے شیطان کا سینگ طلوع ہوگا۔ شیخ البانی ‌رحمتہ ‌اللہ ‌علیہ لکھتے ہیں: یہ حدیث نبوت کی نشانیوں میں سے ایک ہے، کیونکہ پہلا فتنہ مشرق سے ہی ابھرا اور مسلمانوں میں تفرقہ بازی کا سبب بنا، اسی طرح شیعیت اور خارجیت جیسی بدعتیں بھی اسی جہت کی پیداوار ہیں، امام بخاری (۷/۷۷) اورامام احمد (۲/۸۵، ۱۵۳) نے بیان کیا کہ ابن ابی نعیم نے کہا: میں سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس موجود تھا، ایک عراقی آدمی نے ان سے سوال کیا کہ اگر محرِم آدمی مکھی مار دے تو (وہ کیا کفارہ ادا کرے گا)۔ انھوں نے جواب دیتے ہوئے کہا: عراقیو! تم مکھی کو قتل کرنے والے محرِ م کے بارے میں سوال کرتے ہیں، تم نے تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے نواسے(سیدنا حسین ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ) کو قتل کر دیا، حالانکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ((ھُمَا رَیْحَانَتَایَ مِنَ الدُّنْیَا۔)) … یہ (حسن و حسین) تو دنیا میں میری دو کلیاں (یا گلدستے) ہیں۔ ایک فتنہ یہ بھی تھا کہ شیعوں نے جلیل القدر صحابہ پر طعن کیا، بطورِ مثال سیدہ عائشہ صدیقہ بنت صدیق ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا ہیں، جن کی براء ت آسمان سے نازل ہوئی تھی۔ ایک متعصب شیعہ عبد الحسین نے پوری جرأت، بے شرمی اور چالاکی کے ساتھ اپنی کتاب (المراجعات: ص: ۲۳۷) میں سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا پر طعن کرنے کے لیے اور احادیث کے سلسلے میں ان کو جھوٹا ثابت کرنے کے لیے کئی فصلیں قائم کیں۔ اس نے یا تو ضعیف اور موضوع روایات کا سہارا لیا، ان میں سے بعض ضعیفہ (۴۹۶۳، ۴۹۷۰) میں مذکورہ ہیں یا پھر احادیث ِ صحیحہ کی تحریف کی اور ان کے ایسے مفاہیم بیان کیے، جن کی ان روایات میں کوئی گنجائش نہ تھی، … …۔ (صحیحہ: ۲۴۹۴) حافظ ابن حجر نے کہا: (جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ احادیث بیان کیں) اس وقت اہل مشرق کفر پر تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی پیشین گوئی کے مطابق پہلا فتنہ یہیں ابھرا، جو مسلمانوںمیں تفرقہ بازی کا سبب بنا، اور یہی چیز ہے جس سے شیطان خوش ہوتا ہے، اسی طرح کئی بدعتوں کی جائے ظہور بھی یہی ہے۔ (فتح الباری: ۱۳/ ۵۸) تاریخ گواہ ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی وفات کے کچھ عرصہ بعد عراق سے بہت سے فتنے رونما ہوئے، جنگِ نہروان، واقعہ کربلا، بنو امیہ اور بنو عباس کی لڑائیاں،پھر تاتاریوں کے خونریز معرکے، اسی طرح گمراہ فرقوں یعنی خوارج، شیعہ، معتزلہ، جہمیہ، مرجیہ وغیرہ کا ظہور بھی کوفہ، بصرہ اور بغداد،جو عراق کے مشہور شہر ہیں، سے ہوا۔ بارہ سو سال تک تمام مسلمانوں کا متفقہ طور پر یہی مؤقف رہا کہ نجد قرن شیطان سے مراد عراق ہی کا علاقہ ہے۔ اہم تنبیہ بارہویں صدی کے بعد اہل بدعت نے ان احادیث کا مفہوم بگاڑ کر انہیں شیخ الاسلام محمد بن عبد الوہاب ‌رحمتہ ‌اللہ ‌علیہ پر چسپاں کرنا شروع کر دیا۔ جواباً درج ذیل نکات پر غور کریں: (۱) کوئی شک نہیں کہ اس موضوع سے متعلقہ احادیث میں نجد کے الفاظ کا ذکر بھی ہے، جبکہ نجد کا لغوی معنی بلندی اور رفعت ہے، گویا سطح مرتفع اور بلند زمین کو نجد کہا جاتا ہے اور عرب میں بہت سارے نجد ہیں، ابو عبد اللہ یاقوت بن عبد اللہ حموی نے معجم البلدان میں درج ذیل نجد شمار کیے ہیں: نجدألوذ، نجد أجا، نجد برق، نجد خال، نجد الشری، نجد عفر، نجد العقاب، نجد کبکب، نجد مریع، نجد الیمن لیکن جب بعض احادیث میں نجد کے بجائے عراق کا تعین کر دیا گیا ہے تو اختلاف کی گنجائش ہی ختم ہو جاتی ہے، جبکہ تاریخی طور پر عراق ہی فتنوں کی آماجگاہ رہا ہے اور اب بھی امریکہ کے تسلط کے وجہ سے فتنے میں ہے ۔ اللہ تعالیٰ امت ِ مسلمہ پر رحم فرمائے۔ (آمین) (۲) اس موضوع سے متعلقہ اور دیگر احادیث میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے حجاز، شام اور یمن کے لیے خیر و برکت کی دعا کی ہے اور ان علاقوں کو اسلام و ایمان کا مرکز قرار دیا ہے، ایک حدیث کا ذکر اوپر بھی گزرا ہے، اور محمد بن عبد الوہاب کا تعلق نجد یمن سے ہے، نہ کہ نجد عراق سے، احادیث ِ مبارکہ کے مطابق تو محمد بن عبد الوہاب ‌رحمتہ ‌اللہ ‌علیہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی دعائے خیر کے مستحق ٹھہرتے تھے، لیکن معترضین نے نجد والی احادیث کو ان پر فٹ کر کے علم حدیث اور تاریخ و جغرافیہ سے اپنی ناواقفیت کا ثبوت فراہم کر دیا۔ (۳)عملی طور پر عراق ہی فتنوں اور آزمائشوں کا گڑھ رہا ہے، جیسا کہ اوپر گزر چکا ہے۔ (۴) نیز شیخ البانی ‌رحمتہ ‌اللہ ‌علیہ نے کہا: سنت کے مخالف اور توحید سے منحرف بعض لوگ جزیرۂ عرب میں دعوتِ توحید کی تجدید کرنے والے امام محمد بن عبد الوہاب ‌رحمتہ ‌اللہ ‌علیہ پر طعن کرتے ہیں، یہ لوگ اپنی جہالت یا تجاہل کی وجہ سے اس حدیث ِ مبارکہ سے نجد کے علاقے مراد لے کر اس امام کو اس کا مصداق ٹھہراتے ہیں۔ حالانکہ مختلف طرق سے معلوم ہوتاہے کہ اس سے مراد عراق کا علاقہ ہے، امام خطابی اور حافظ ابن حجر عسقلانی جیسے قدیم علما نے بھی اسی کی تائید کی ہے۔ ان جاہلوں کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ اگر کوئی آدمی فی نفسہ نیک او رصالح ہو، لیکن اس کا تعلق مذموم علاقوں سے ہو، تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ اسے ہی مذمت کے لائق سمجھا جائے۔ جیسے مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ اور شام کے علاقوں کی تعریف کی گئی ہے، لیکن ان میں سکونت اختیار کرنے والے کئی لوگ فاسق اور فاجر بھی ہیں، اسی طرح عراق کی مذمت سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہاں کا ہر باسی ہی قابل مذمت ہے، بلکہ اس میں کئی عالم اور نیکوکار لوگ نظر آئیں گے۔ جب سیدنا ابو دردائ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے سیدنا سلمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو عراق سے شام کی طرف ہجرت کر جانے کی دعوت دی تو انھوں نے کہا: اَمَّا بَعْدُ؛ فَاِنَّ الْاَرْضَ الْمُقَدَّسَۃَ لَاتُقَدِّسُ اَحَدًا، وَاِنَّمَا یُقَدِّسُ الْاِنْسَانَ عَمَلُہٗ۔ … کوئی مقدس سر زمین کسی کو پاک نہیں کرتی، بلکہ ہر انسان کو اس کا (نیک) عمل پاک کرتاہے۔ (صحیحہ: ۲۲۴۶) حافظ ابن حجر نے کہا: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اہل مشرق کے حق میں دعا نہ کی، تاکہ یہ لوگ اس شرّ سے باز آنے کی کوشش کریں، جس کا ظہور ان کے علاقے سے ہو گا، … (قرن الشیطان کا راجح معنی یہ ہے کہ اس سے مراد) شیطان اور ان اسباب کی قوت ہے، جن کے ذریعے وہ گمراہی پھیلاتا ہے۔ (فتح الباری: ۱۳/ ۵۸) عبد الرحمن مبارکپوری نے کہا: حسی زلزلے مراد ہیں یا معنوی، جو دلوں کو ہلا کر رکھ دیتے ہیں اور فتنوں سے مراد وہ مصیبتیں اور آزمائشیں ہیں، جو دین کے ضعف اور قلت کا سبب بنیں گی، …۔ قرن الشیطان سے مراد اس شیطان کے اعوان وانصار اور اس کی جماعت یا اس کی قوت اور اسبابِ ضلالت ہیں، …۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی مراد یہ تھی کہ جہت مشرق سے فتنوں اور بدعتوںکا ظہور ہو گا اور ایسے ہی ہوا، جنگ جمل اور جنگ صفین اسی سمت میں لڑی گئیں، پھر یہیں سے خوارج کاظہور ہوا۔ (تحفۃ الاحوذی: ۴/ ۳۸۱)