Blog
Books
Search Hadith

قیامت کے قائم ہونے تک پے درپے آنے والے ان فتنوں کا بیان، جن کے باقاعدہ نام رکھے گئے ہیں

۔ (۱۲۸۴۱)۔ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ حَدَّثَنِیْ اَبِیْ ثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ اَنَا مَعْمَرُ عَنْ قَتَادَۃَ عَنْ نَصْرِ بْنِ عَاصِمٍ اللَّیْثِیِّ عَنْ خَالِدِ بْنِ خَالِدِ نِ الْیَشْکَرِیِّ قَالَ: خَرَجْتُ زَمَانَ فُتِحَتْ تُسْتَرُ حَتّٰی قَدِمْتُ الْکُوْفَۃَ، فَدَخَلْتُ الْمَسْجِدَ فَاِذَا اَنَا بِحَلْقَۃٍ فِیْہَا رَجُلٌ صَدَعٌ مِنَ الرِّجَالِ، حَسَنَ الثَّغْرِ، یُعْرَفُ فِیْہِ اَنَّہٗمِنْرِجَالِاَھْلِالْحِجَازِقَالَ: فَقُلْتُ مَنِ الرَّجُلُ؟ فَقَالَ الْقَوْمُ: اَوَمَا تَعْرِفُہٗ؟فَقُلْتُ: لَا،فَقَالُوْا :ہٰذَا حُذَیْفَۃُ بْنُ الْیَمَانِ ( ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌) صَاحِبُ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، قَالَ: فَقَعَدْتُّ وَحَدَّثَ الْقَوْمَ فَقَالَ: اِنَّ النَّاسَ کَانُوْا یَسْاَلُوْنَ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَنْ الخَیْرِ وَکُنْتُ اَسْاَلُہٗعَنِالشَّرِّ،فَاَنْکَرَذٰلِکَالْقَوْمُعَلَیْہِ فَقَالَ :لَھُمْ اِنِّیْ سَاُخْبِرُکُمْ بِمَا اَنْکَرْتُمْ مِنْ ذٰلِکَ، جَائَ الْاِسْلَامُ حِیْنَ جَائَ فَجَائَ اَمْرٌ لَیْسَ کَأَمْرِ الْجَاھِلِیَّۃِ وَکُنْتُ قَدْ اُعْطِیْتُ فِی الْقُرْآنِ فَہْمًا، فَکَانَ رِجَالٌ یَجِیْئُوْنَ فَیَسْاَلُوْنَ عَنِ الْخَیْرِ فَکُنْتُ اَسْاَلُہٗعَنِالشََّرِّ،فَقُلْتُ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! اَیَکُوْنُ بَعْدَ ہٰذَا الْخَیْرِ شَرٌّ کَمَا کَانَ قَبْلَہُ شَرٌّ؟ فَقَالَ: ((نَعَمْ۔)) قَالَ: قُلْتُ: فَمَا الْعِصْمَۃُیَارَسُوْلَ اللّٰہِ!؟ قَالَ: ((اَلسَّیْفُ۔)) قَالَ: قُلْتُ: وَھَلْ بَعْدَ ہٰذَا السَّیْفِ بَقِیِّۃٌ؟ قَالَ: ((نَعَمْ تَکُوْنُ اَمَارَۃٌ عَلٰی اَقْذَائٍ وَھُدْنَۃٌ عَلٰی دَخَنٍ۔)) قَالَ: قُلْتُ: ثُمَّ مَاذَا ؟ قَالَ: ((ثُمَّ تَنْشَاُ دُعَاۃُ الضَّلاَلَۃِ فَاِنْ کَانَ لِلّٰہِ یَوْمَئِذٍ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃٌ جَلَدَ ظَہْرَکَ وَاَخَذَ مَالَکَ فَالْزَمْہٗوَاِلَّافَمُتْوَاَنْتَعَاضٌّعَلٰی جَذْلِ َشَجَرَۃٍ۔)) قَالَ: قُلْتُ: ثُمَّ مَاذَا؟ قَالَ: ((یَخْرُجُ الدَّجَّالُ بَعْدَ ذٰلِکَ مَعَہٗنَہْرٌوَنَارٌمَنْوَقَعَفِیْ نَارِہٖٖوَجَبَاَجْرُہٗوَحَطَّوِزْرُہٗ،وَمَنْوَقَعَفِیْ نَہْرِہٖوَجَبَوِزْرُہٗوَحَطَّاَجْرُہٗ۔)) قَالَ: قُلْتُ: ثُمَّمَاذَا؟قَالَ: ((ثُمَّ نُتِجَ الْمَہْرُ فَلَا یُرْکَبُ حَتّٰی تَقُوْمَ السَّاعَۃُ۔)) اَلصَّدَعُ مِنَ الرَّجَالِ الضَّرْبُ، وَقَوْلُہُ: فَمَا الْعِصْمَۃُ مِنْہُ قَالَ: اَلسَّیْفُ، کَانَ قَتَادَۃُیَضَعُہُ عَلَی الرِّدَۃِ الَّتِیْ کَانَتْ فِیْ زَمَنِ اَبِیْ بَکْرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، وَقَوْلُہُ اَمَارَۃٌ عَلٰی اَقْذَائٍ وَھُدْنَۃٍ یَقُوْلُ صُلْحٌ وَقُوْلُہُ عَلٰی دَخَنٍ یَقُوْلُ عَلٰی ضَغَائِنَ، قِیْلَ لِعَبْدِ الرَّزَّاقِ مِمَّنْ التَّفْسِیْرُ قَالَ: عَنْ قَتَادَۃَ زَعَمَ۔ (وَفِیْ رِوَایَۃٍ) قَالَ: قُلْتُ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ: ((مَاھُدْنَۃُ عَلٰی دَخَنٍ قَالَ: قُلُوْبٌ لَاتَعُوْدُ عَلٰی مَاکَانَتْ۔ (مسند احمد:۲۳۸۲۲ )

خالد بن خالد یشکری کہتے ہیں:جس زمانے میں تُسْتَر فتح ہوا تھا، میں ان دنوں کوفہ میں گیا، میں ایک مسجد میں داخل ہوا اور دیکھا کہ لوگ وہاں ایک حلقہ کی صورت میں بیٹھے ہیں، اس میں ایک چھریرے بدن کا آدمی تھا، اس کے اگلے دانت یا منہ بہت خوبصورت تھا، ایسے معلوم ہوتا تھا کہ وہ حجاز کا رہنے والا ہے۔ میںنے پوچھا: یہ کون صاحب ہیں؟ لوگوں نے کہا: کیا آپ ان کو نہیں جانتے؟ میں نے کہا: جی نہیں، انہوںنے بتایا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے صحابی سیدنا حذیفہ بن یمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ہیں، یہ سن کر میں بھی بیٹھ گیا، وہ لوگوں سے باتیں کرتے رہے، انہوں نے یہ بھی بیان کیا کہ لوگ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے خیر کے بارے میں پوچھتے تھے اور میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے شرّ کے متعلق پوچھا کرتا تھا۔ لوگوں کو اس بات پر حیرت ہوئی، لیکن انھوں نے کہا: تم جس بات پر تعجب کر رہے ہو، میں تمہیں بتلاتا ہوں۔ جب اسلام آیا تو ایسا ماحول پیدا ہوگیا کہ جو جاہلیت کے دور سے مختلف تھا، جبکہ مجھے فہمِ قرآن کا کافی ملکہ حاصل تھا، لوگ آکر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے خیر کی بات پوچھا کر تے، جبکہ میں شرکے بارے میں پوچھا کرتا تھا۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا اس خیر (یعنی ہدایت اور اسلام) کے بعد شر (اورفتنوں) کا دور آئے گا، جیسا کہ اس سے پہلے تھا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جی ہاں۔ میں نے کہا: اس سے بچنے کا کیا طریقہ ہو گا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تلوار۔ میں نے کہا: کیا تلوار کے چلنے کے بعد اسلام کا کوئی حصہ باقی رہے گا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جی ہاں، لیکن بباطن لڑائی ہو گی اور ظاہری صلح ہو گی‘ اس کے بعد ضلالت و گمراہی کی طرف پکارنے والے منظرِ عام پر آئیں گے‘ اگر ان دنوں میں تجھے کوئی خلیفہ نظر آ جائے تو اسے لازم پکڑ لینا‘ اگرچہ وہ تیرے جسم کو اذیت پہنچائے اور تیرا مال سلب کر لے، وگرنہ اس حال میں مر جانا کہ تو درخت کے تنے کے ساتھ چمٹا ہوا ہو۔ میںنے کہا: پھر کیا ہو گا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: پھر دجال نمودار ہو گا، اس کے پاس پانی کی نہر ہوگی اور آگ بھی ہوگی، جو آدمی اس کی آگ میں گیا، اس کے لیے اللہ کے ہاں اجر (اور نجات) لازمی ہوگی، اور اس کے تمام گناہ معاف ہوجائیں گے، لیکن جو کوئی اس کی نہر میں چلا گیا، وہ گنہگار ہوگا اور اس کا تمام اجر و ثواب ضائع ہوجائے گا۔ میں نے کہا: پھر اس کے بعد کیا ہوگا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس کے بعد اس قدر جلد قیامت آجائے گی کہ ان دنوں جو گھوڑی بچہ جنم دے گی، ابھی تک اس پر سواری نہ کی جائے گی کہ قیامت برپا ہوجائے گی۔ اَلصَّدَعُ مِنَ الرَّجَالِ سے مراد الضرب یعنی کم گوشت والا آدمی ہے، سیدنا حذیفہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا یہ سوال کہ اس فتنے سے بچنے کی کیا صورت ہوگی؟ اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا جواب کہ تلوار ہو گی، امام قتادہ اس کو سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے دور میں ہونے والے ارتداد پر محمول کرتے تھے، اَمَارَۃٌ عَلٰی اَقْذَائٍ وَھُدْنَۃٍ سے مراد صلح ہے، اور الدخن سے مراد دلی نفرت اور کھوٹ ہے۔ جب حدیث کے راوی عبدالرزاق سے پوچھا گیا کہ ان الفاظ کی یہ وضاحت کس نے کی ہے تو انھوں نے کہا کہ امام قتادۃ نے کی۔
Haidth Number: 12841
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۲۸۴۱) تخریج: حدیث حسن دون قولہ: ثم ینتج المھر فلا یرکب حتی تقوم الساعۃ ، أخرجہ ابوداود: ۴۲۴۵ (انظر: ۲۳۴۲۹)

Wazahat

فوائد:… السَّیْف :تلوار کے ذریعے عفت و عصمت کا تحفظ ہو گا۔ بقیّۃ :یعنی جب ہم ان سے لڑیں گے، تو کیا اس لڑائی کے بعد اسلام باقی رہے گا؟ أقذائ : ابن اثیر کہتے ہیں: قذاۃ کی جمع القَذی ہے اور القَذی کی جمع أقذائ ہے۔ لغت میں اس سے مراد وہ مٹی یا بھوسے کے تنکے یا میل کچیل ہے، جو آنکھ میں پڑتی ہے یا پانی میں گرتی ہے۔ حدیث میں اس لفظ کا مفہوم یہ ہے کہ بظاہر مسلمان اکٹھے تو ہوں گے، لیکن ان کے دلوں میں فساد اور کینہ ہو گا۔ دَخَن :قتادہ کی رائے کے مطابق اس سے مراد کینہ ہے، متن میںمذکور ایک طریق میں اس کی تفسیر یہ بیان کی گئی ہے: لوگوں کے دل (ان خصائل حمیدہ) کی طرف نہیں لوٹیں گے‘ جن سے وہ پہلے متصف ہوں گے۔ جَذْل :وہ لکڑی، جو اس مقصد کے لیے گاڑھی جاتی ہے، تاکہ اونٹ اس کے ساتھ خارش کریں۔ اہم فائدہ:… حافظ ابن حجرکہتے ہیں کہ طبری نے کہا: اس حدیث میں یہ وضاحت بھی کر دی گئی ہے کہ جب مسلمانوں کا ایک حاکم و خلیفہ نہ ہو اور وہ مختلف فرقوں میں بٹ چکے ہوں، تو پھر کسی مخصوص فرقے کی پیروی نہ کرے اور تمام تنظیموں سے علیحدگی اختیار کر لے، بشرطیکہ ایسا کرنے میں کسی شرّ کا خطرہ نہ ہو، اس موضوع پر مختلف احادیث میں یہی جمع و تطبیق مناسب ہے۔