Blog
Books
Search Hadith

ان عام فتنوں اور اہم امور کا بیان، جن کے وقوع پذیر ہونے کے بعد قیامت قائم ہوگی

۔ (۱۲۸۷۱)۔ عَنْ عَبْدِاللَّہِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللَّہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ: ((سَیَکُوْنُ فِي آخِرِ اُمَّتِي رِجَالٌ یَرْکَبُوْنَ عَلٰی سُرُوْجٍ کَاَشْبَاہِ الرِّحَالِ، یَنْزِلُوْنَ عَلٰی اَبْوَابِ الْمَسَاجِدِ، نِسَاؤُھُمْ کَاسِیَاتٌ عَارِیَاتٌ، عَلٰی رُؤُوْسِھِنَّ کَاَسْنِمَۃِ الْبُخْتِ الْعِجَافِ، اِلْعَنُوْھُنَّ فَاِنَّھُنَّ مَلْعُوْنَاتٌ، لَوْکَانَتْ وَرَائَکُمْ اُمَّۃٌ مِنَ الْاُمَمِ لَخَدَمَھُنَّ نِسَاوُکُمْ ، کَمَاخَدَمَکُمْ نِسَائُ اْلاُمَمِ قَبْلَکُمْ۔)) (مسند احمد: ۷۰۸۳)

سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو فرماتے سنا: میری امت کے آخری زمانے میں لوگ کجاووں کی طرح کی زینوں پر سوار ہوں گے‘ وہ مساجد کے دروازوں پر اتریں گے‘ ان کی عورتیں لباس پہننے کے باجود ننگی ہوں گی‘ ان کے سر کمزور بختی اونٹوں کے کوہانوں کی طرح ہوں گے۔ ایسی عورتیں ملعون ہیں‘ ان پر لعنت کرنا، اگر تمھارے بعد کوئی اور امت ہوتی تو تمھاری عورتیں اس کی خدمت کرتیں جیسا کہ تم سے پہلے والی امتوں کی عورتوں نے تمھاری خدمت کی ہے۔
Haidth Number: 12871
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۲۸۷۱) تخریج: صحیح، قالہ الالبانی، أخرجہ الطبرانی فی الصغیر : ۱۱۲۵، والحاکم: ۴/ ۴۳۶،و ابن حبان: ۵۷۵۳ (انظر: ۷۰۸۳)

Wazahat

فوائد:… سبحان اللہ! جیسے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پیشین گوئی کر دی، ایسے ہی ہو رہا ہے۔ لباس کے باوجود عورت کا برہنہ یا نیم برہنہ ہونا، ایسے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اس دور کا امتیازی وصف ہے۔ بازاروں، پارکوں، تعلیمی اداروں اور سیرگاہ بن جانے والی مسجدوں میں اور شادی بیاہ کے موقع پر یہ شرّاتنا عام ہو چکا ہے کہ بے غیرتی کی انتہا ہو گئی ہے۔ رہی سہی کمی میڈیا نے پوری کر دی ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ خاندانوں کے سربراہ اس قدر بے حس ہو گئے ہے کہ وہ اس کو برائی تسلیم کرنے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں۔ رہا مسئلہ گاڑیوں پر سوار ہو کر مساجد کی طرف آنے کا، تو شرعی مسئلہ کی حد تک اس کی گنجائش ملتی ہے، لیکن اس حدیث میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا مقصود کیا ہے؟ شیخ البانی کے درج ذیل کلام میں جواب دیا جائے گا۔ شیخ البانی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں: (فوائد المخلص) میں الرحال کے الفاظ ہیں،جب کہ (مسند الامام احمد) اور (الموارد) میں الرجال کے۔ اسی روایت کی شرح کرتے ہوئے شیخ احمد عبد الرحمن بُنّا نے (الفتح الربانی: ۱۷/۳۰۱) میں کہا: (جو لوگ اپنی عورتوں کو بے پردہ چھوڑ دیتے ہیں) وہ انسانی وجود میں ڈھلے ہوئے انسان ضرور ہوتے ہیں، لیکن حقیقت میں مرد نہیں ہوتے، کیونکہ جو مرد حسّی اور معنوی طور پر کامل ہوتا ہے، وہ اپنی عورتوں کو ایسا لباس نہیں پہننے دیتا، جس سے ان کے جسم کا پردہ ہی نہ ہو۔ لیکن وہ اس اشکال پر مطلع نہ ہو سکے، جس کے بارے میں شیخ احمد شاکر رحمہ اللہ تعالیٰ نے مسند احمد پر حاشیہ لگاتے ہوئے کہا: (اگر الرجال کے الفاظ پر مشتمل روایت کو درست تسلیم کریں تو) اس حدیث مبارکہ کے الفاظ میری امت کے آخری زمانے میں لوگ، لوگوں کی طرح زینوں پر سوار ہوں …۔ میں اشکال پیدا ہو جاتا ہے اور وہ اس طرح کہ مردوں کو مردوں سے تشبیہ دینا بعید بات ہے اور اس کی تاویل میں تکلف پایا جا تا ہے، امام حاکم کی روایت کے الفاظ یہ ہیں: ((سَیَکُوْنُ فِیْ آخِرِ ھٰذِہِ الْاُمَّۃِ رِجَالٌ یَرْکَبُوْنَ عَلٰی الْمَیَاثِرِ حَتّٰی یَاْتُوْا اَبْوَابَ مَسَاجِدِھِمْ، نِسَاؤُھُمْ کَاسِیَاتٌ عَارِیَاتٌ …۔)) یعنی: میری امت کے آخری زمانے میں لوگ ریشم و دیباج سے آراستہ سواریوں پر سوار ہوں گے، وہ مساجد کے دروازوں پر اتریں گے‘ ان کی عورتیں لباس پہننے کے باجود ننگی ہوں گی‘ …۔ اور طبرانی کے حوالے سے (مجمع الزوائد) میں بیان کردہ الفاظ یہ ہیں: ((سیکون فی امتی رجال یرکبون نساؤھم علی سروج کأشباہ الرجال۔)) مجمع الزوائد کے طابع نے جرأت یا جہالت کی بنا پر اس روایت کے الفاظ یُرْکِبُون کو یرکب سے بدل دیا، میرے نزدیک تو یُرْکِبُونَ نِسَائَ ھُم کے الفاظ واضح اور ظاہر ہیں۔ بہرصورت حدیث ِ مبارکہ کا مرادی معنی واضح ہے اور عصرِ حاضر میں ثابت ہو چکا ہے، بلکہ اس دور سے پہلے بھی لعنت وصول کرنے والی برہنہ عورتوں کا وجود ملتا ہے۔ میں (البانی) کہتا ہوں: اگر شیخ احمد شاکر کو الرحال والی روایت کا علم ہوتا تو ان کا اشکال دور ہو جاتا اور بغیر کسی تکلف و توجیہ کے معنی درست ہو جاتا، میرے نزدیک تو تین اسباب کی بنا پر اِنہی الفاظ والی روایت راجح ہے۔ یہ حدیث ِ مبارکہ اسے اعتبار سے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا معجزہ ہے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی پیشین گوئی پوری ہوتی ہوئی نظر آ رہی ہے، آج کل واقعی لوگ گاڑیوں پر سوار ہو کرمساجد کے دروازوں تک پہنچتے ہیں۔ جمعہ کے دن اتنی موٹر کاریں اور دوسری گاڑیاں جمع ہو جاتی ہیں کہ سڑک کھلی ہونے کے باوجود تنگ پڑ جاتی ہے۔ ان لوگوں کی کثیر تعداد یا تو سرے سے باقی پانچ نمازوں کا اہتمام نہیں کرتی یا پھر اپنے گھروں میں ادا کرنے پر اکتفا کرتی ہے۔ گویا کہ ان لوگوں نے نمازِ جمعہ کو ہی کافی سمجھ لیا ہے، اس لیے اس موقع پر ان کی کثیر تعداد موجود ہوتی ہے، گاڑیوں کے ذریعے مساجد تک پہنچنے کی وجہ سے یہ لوگ نماز کے مقصد اور ثمرہ سے محروم رہتے ہیں ، اور ایسے لوگوں کی بیویوں اور بیٹیوں کا معاملہ بھی بڑا واضح ہے۔ اس سے بڑھ کر اس حدیث ِ مبارکہ کا ایک اور مصداق نمازِ جنازہ کے موقع پر دکھائی دیتا ہے۔ نازک مزاج، عیش پرست اور آسودگی کی وجہ سے مغرور اور فرضی نماز کو ترک کرنے والے لوگ اپنی گاڑیوں پر سوار ہو کر نمازِ جنازہ کے پیچھے چلتے ہیں۔ بلکہ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جب جنازہ کو گاڑی سے اتار کر مسجد میں یا جنازہ گاہ میں رکھا جاتا ہے تو یہ لوگ اپنی گاڑیوں میں بیٹھے رہتے ہیں، البتہ جب دفنانے کا وقت آتا ہے تو عبادت یا ذکرِ آخرت کی بنا پر نہیں، بلکہ نفاق، مداہنت اور چاپلوسی سے کام لیتے ہوئے جنازے کے ساتھ چل پڑتے ہیں ہیں۔ بس اللہ ہی ہے، جس سے مدد طلب کرنی چاہیے۔ میرے نزدیک تو تاویل کی یہی صورت بہتر ہے، اگر یہ درست ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہو گی اور اگر یہ خطا پر مبنی ہے تو میری طرف سے ہو گی۔ اللہ تعالیٰ سے سوال ہے کہ وہ میرے تمام گناہ معاف کر دے، وہ دانستہ طور پر کیے ہوں یا نادانستہ طور پر۔ (صحیحہ: ۲۶۸۳)