Blog
Books
Search Hadith

فتنوں سے متعلقہ سیدناحذیفہ بن یمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی روایات

۔ (۱۲۸۷۹)۔ وَعَنْ اَبِیْ وَائِلٍ عَنْ حُذَیْفَۃَ بْنِ الْیَمَانِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قَامَ فِیْنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَقَامًا فَمَا تَرَکَ شَیْأًیَکُوْنُ بَیْنَیَدَیِ السَّاعَۃِ اِلَّا ذَکَرَہُ فِیْ مَقَامِہِ ذٰلِکَ حَفِظَہُ مَنْ حَفِظَہُ وَنَسِیَہُ مَنْ نَسِیَہُ، قَالَ حُذَیْفَۃُ: فَاِنِّیْ لَاَرٰی اَشْیَائَ قَدْ کُنْتُ نَسِیْتُہَا، فَاَعْرِفُہَا کَمَا یَعْرِفُ الرَّجُلُ وَجْہَ الرَّجُلِ قَدْ کَانَ غَائِبًا عَنْہُ یَرَاہُ فَیَعْرِفُہُ، قَالَ وَکِیْعٌ (اَحَدُ الرُّوَاۃِ) مَرَّۃً: فَرَآہُ فَعَرَفَہُ۔ (مسند احمد: ۲۳۶۶۳)

سیدنا حذیفہ بن یمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہمارے درمیان کھڑے ہوئے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے قیامت تک ہونے والے ہر واقعہ کا ذکر فرما دیا، یاد رکھنے والوں نے ان کو یاد رکھا اور بھلا دینے والوں نے بھلا دیا، میں خود بھی بہت سی ایسی اشیاء دیکھتا ہوں، جو مجھے بھول گئی تھیں، لیکن وہ دیکھنے سے مجھے یاد آ جاتی ہیں، جیسے ایک آدمی جب غائب ہو جانے والے (اور بھول جانے والے) آدمی کو دیکھتا ہے تو وہ اسے پہنچان لیتا ہے۔
Haidth Number: 12879
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۲۸۷۹) تخریج: أخرجہ البخاری: ۶۶۰۴، ومسلم: ۲۸۹۱ (انظر: ۲۳۲۷۴)

Wazahat

فوائد:… آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مستقبل میں ہونے والے جتنے اس قسم کے امور بیان کیے تھے، ان میں سے کئی امور کا تعلق صحابۂ کرام کے دور سے تھے، مثلا: سیدنا عمر ، سیدنا عثمان اور سیدنا علی کی مظلومانہ شہادتیں، سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے زمانۂ خلافت میں امت ِ مسلمہ کا مختلف گروہوں میں بٹ جانا، ان میں جنگیں ہونا اور پھر سیدنا حسن ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ذریعے صلح ہونا، سیدنا حسین ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی شہادت، مال و دولت کی فراوانی، صحابۂ کرام پر سب و شتم، ملوکیت اور اس کے اثرات، بعض صحابہ کو کہنا کہ وہ باغی گروہ کے ہاتھوں قتل ہوں گے۔ وغیرہ وغیرہ۔ جب سیدنا حذیفہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اس قسم کا واقعہ رونما ہوتے ہوئے دیکھتے تو ان کو اس سے متعلقہ حدیث یاد آ جاتی، حدیث نمبر (۱۲۸۸۲)پر غور کریں کہ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی حیات کو فتنوں کی رکاوٹ قرار دیا اور جب اس رکاوٹ کو ہٹا دیا گیا تو سیدنا حذیفہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سمجھ گئے کہ فتنوں کی انتظار ختم ہو گئی ہے، پھر آہستہ آہستہ یہ سلسلہ زیادہ ہوا، یہاں تک کہ سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو شہید کر دیا گیا اور امت ِ مسلمہ دو بڑے فریقوں میں بٹ کر ایک دوسرے کے خلاف محاذ آراء ہو گئی۔