Blog
Books
Search Hadith

وہ احادیث ِ مبارکہ جو لَا تَقُوْمُ السَّاعَۃُ … کے الفاظ سے شروع ہوتی ہیں اس سلسلے میں سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی احادیث

۔ (۱۲۸۸۸)۔ وَعَنْہُ اَیْضًا قَالَ: قَالَ اَبُوالْقَاسِمِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((لَا تَقُوْمُ السَّاعَۃُ حَتّٰییُقْبَضَ الْعِلْمُ، وَتَظْہَرَ الْفِتَنُ، وَیَکْثُرَ الْھَرْجُ۔)) قَالُوْا: وَمَا الْھَرْجُ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ!؟ قَالَ: ((اَلْقَتْلُ۔)) (مسند احمد: ۷۴۸۰)

سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ ابوالقاسم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قیامت اس وقت تک قائم ہوگی جب علم چھین لیا جائے گا، فتنے نمودار ہوں گے اور ھرج عام ہوجائے گا۔ صحابہ کرام نے دریافت کیا: اے اللہ کے رسول! ھرج سے کیا مراد ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قتل۔
Haidth Number: 12888
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۲۸۸۸) تخریج: أخرجہ البخاری: ۷۰۶۱، ومسلم: ص ۲۰۵۷ (انظر: ۷۴۸۸)

Wazahat

فوائد:… اب شرعی علم کا شدید فقدان ہے، بڑے بڑے اہل علم بہت جلد وفات پا رہے ہیں، اس وقت ہمارا زمانہ درج ذیل حدیث ِ مبارکہ کا مصداق بنا ہوا ہے۔ سیدنا عبد اللہ بن عمرو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ((اِنَّ اللّٰہَ لَا یَقْبِضُ الْعِلْمَ اِنْتِزَاعًا یَنْتَزِعُہُ مِنَ النَّاسِ، وَلٰکِنْ یَقْبِضُ الْعِلْمَ بِقَبْضِ الْعُلَمَائِ حَتّٰی اِذَا لَمْ یَتْرُکْ عَالِمًا، اِتَّخَذَ النَّاسُ رُؤَسَائَ جُہَّالًا فَسُئِلُوْا فَأَفْتَوْا بِغَیْرِ عِلْمٍ فَضَلُّوْا وَأَضَلُّوْا۔)) … بیشک اللہ تعالیٰ علم کو اس طرح نہیں اٹھائے گاکہ وہ اِس کو لوگوں سے سلب کر لے، وہ تو علماء کو فوت کر کے علم کو اٹھائے گا، یہاں تک کہ جب وہ کسی عالم کو زندہ نہیں چھوڑے گا تو لوگ جاہلوں کو اپنا سردار بنا لیں گے، پس جب ان سے سوال کیا جائے گا تو وہ بغیر علم کے فتوے دیں گے اور اس طرح خود بھی گمراہ ہو جائیں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے۔ (صحیح بخاری: ۱۰۰، صحیح مسلم: ۲۶۷۳) اگر اِس دور کا سلف صالحین اور ان کے بعد والے دور سے موازنہ کیا جائے تو واضح طور پر علم شرعی کا شدید فقدان نظر آئے گا، قتل اور فتنوں کی کثرت کا معاملہ تو واضح ہے۔ یہاں یہ بات ذہن نشین کرنا ضروری ہے کہ دنیوی تعلیم کی تمام صورتیں ایک فن ہیں، جو دنیا میں مختلف انداز میں معاون ثابت ہوتی ہیں، لیکن اس تعلیم سے تقوی، صالحیت اور اسلامی غیرت کے جذبات اور دین کی سمجھ حاصل نہیں ہوتی، بلکہ بعض لوگوں کو دیکھا گیا ہے کہ وہ اعلی ڈگری حاصل کرنے کے بعد غرور و تکبر میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ غور فرمائیں کہ ہمارے معاشرے میں انگریزی، ریاضی، کیمسٹری، کمپیوٹر، اردو اور دوسرے مضامین میں ماسٹر، ایم فل اور پی ایچ ڈی کی ڈگریوں کے حاملین موجود ہیں، لیکن اگر وہ فہم قرآن سے محروم ہیں، ترجمۂ قرآن سے دور ہیں، علم حدیث پر ان کو دسترس حاصل نہیں ہے، اسلامی فقہ کا ان کو تجربہ نہیں ہے، تو یہی کہا جائے گا کہ اس معاشرے میں شرعی علم کا فقدان ہے اور اس میں بسیرا کرنے والے جاہل ہیں، کیونکہ شریعت کی نگاہ میں اس چیز کو علم کہتے ہیں جو اعمال صالحہ کا سبب بنتا ہے۔ قارئین کرام! محسوس نہ کرنا، راقم الحروف کا ایسے ہزاروں افراد سے واسطہ پڑا، جو اعلی دنیوی تعلیم سے آراستہ ہیں، لیکن نماز جیسے فریضے سے کوسوں دور ہیں، قرآن مجید کی دیکھ کر بھی تلاوت نہیں کر سکتے، اہلیت ہونے کے باوجود میں کئی کئی ماہ قرآن مجید کھولنا ان کو نصیب نہیں ہوتا، لیکن اپنے آپ کو اتنا اہلیت والا سمجھتے ہیں کہ گویا ان کے بغیر دنیا بے آسرا ہو جائے گی۔ اگر آپ کو یقین نہیں ہے تو نماز کے وقت میں کسی یونیورسٹی اور اس میں تعمیر شدہ مسجد کاجائزہ لے لیں۔ شریعت میں ایسے معاشرے کی کوئی وقعت نہیں ہے۔