Blog
Books
Search Hadith

آدمی اذان اور اقامت سنتے وقت اور اذان کے بعد کیا کہے

۔ (۱۲۹۷) عَنْ مُجَمِّعِ بْنِ یَحْیَی الْأَ نْصَارِیِّ قَالَ: کُنْتُ إِلی جَنْبِ أَبِیْ أُمَامَۃَ بْنِ سَہْلٍ وَھُوَ مُسْتَـقْبِلُ الْمُوََذِّنِ وَکَبَّرَ الْمُؤَذِّنُ اثْنَتَیْنِ، فَکَبَّرَ أَبُو أُمَامَۃَ اثْنَتَیْنِ، وَشَہِدَ أَنْ لَّاإِلَہَ إِلَّا اللّٰہُ اِثْنَتَیْنِ، فَشَہِدَ أَبُو أُمَامَۃَ اثْنَتَیْنِ، وَشَہِدَ الْمُؤَذِّنُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ اِثْنَتَیْنِ، وَشَہِدَ أَبُوْ أُمَامَۃَ اثْنَتَیْنَ، ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَیَّ فَقَالَ: ھٰکَذَا حَدَّثَنِیْ مُعَاِویَۃُ بْنُ أَبِیْ سُفْیَانَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ۔ (مسند احمد: ۱۶۹۸۷)

مجمع بن یحی انصاری کہتے ہیں: میں سیّدنا ابو امامہ بن سہل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس تھا اور وہ مؤذن کی طرف رخ کیے ہوئے تھے، مؤذن نے دو دفعہ اللہ اکبر کہا، جواب میں سیّدنا ابو امامہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بھی دو دفعہ اللہ اکبر کہا، مؤذن نے دو مرتبہ أشہد أن لا إلہ إلا اللہ کہا، سیّدنا ابو امامہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بھی دو مرتبہ أشہد أن لا إلہ إلا اللہ کہا، پھر مؤذن نے دو دفعہ أشہد أن محمدا رسول اللہ کہا تو سیّدنا ابو امامہ نے بھی دو دفعہ أشہد أن محمدا رسول اللّٰہ کہا، پھر میری طرف رُخ کر کے فرمایا: مجھے سیّدنا معاویہ بن ابی سفیان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے ایسے ہی بیان کیا تھا۔
Haidth Number: 1297
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۲۹۷) تخر یـج: …اسنادہ صحیح علی شرط مسلم۔ أخرجہ ابن حبان: ۱۶۸۸، وأخرجہ البخاری: ۶۱۲، ۶۱۳، والنسائی: ۲/ ۲۴ بالفاظ مختلفۃ۔ (انظر: ۱۶۸۲۸، ۱۶۸۴۱،۱۶۸۶۲)

Wazahat

فوائد:… اذان کے موقع پر کیے جانے والے اذکار کا خلاصہ یہ ہے، مذکورہ بالا احادیث میں ان کے اجرو ثواب کا ذکر ہو چکا ہے: ۱۔صدقِ دل سے مؤذن کے ساتھ اذان کے کلمات دوہرانا اور حی علی الصلاۃ اور حی علی الفلاح کے جواب میں لا حول ولا قوۃ الا باللّٰہ کہنا۔ اشھد ان لا الہ الا اللہ اور اشھد ان محمد رسول اللہ کے جواب میں اَنَا (اور میں بھی) کہنا بھی درست ہے۔ (مسلم) ۲۔اذان کے بعد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر درود بھیجنا ۳۔پھر یہ دعاپڑھنا: ((اَللّٰہُمَّ رَبَّ ھٰذِہِ الدَّعْوَۃِ التَّامَّۃِ وَالصَّلَاۃِ الْقَائِمَۃِ آتِ محُمَّدًا نِ الْوَ سِیْلَۃَ وَالْفَضَیْلَۃَ وَابْعَثْہُ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا نِ الَّذِی أَ نْتَ وَعَدْتَہ۔)) اس دعا کے آخر میں اِنَّکَ لَا تُخْلِفُ الْمِیْعَادِ کا اضافہ کرنا بھی درست ہے۔ ۴۔ (( وَأَنَا أَشْہَدُ أَنْ لاَّ إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُولُہُ رَضِینَا باِللّٰہِ رَبَّا وَّبِمُحَمَّدٍ رَّسُوْلًا وَّبِا لإِْ سْلَامِ دِیْنًا۔)) یہ دعا کب پڑھی جائے؟ اسی باب میں اس پر بحث ہو چکی ہے۔ تنبیہ:… کیا اقامت کے کلمات کا بھی جواب دینا چاہیے؟ بعض اہل علم نے درج ذیل روایت اور اس مفہوم کی روایات سے یہ استدلال کیا ہے کہ اقامت کا بھی جواب دے جائے: سیّدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ((اِذَا سَمِعْتُمُ النِّدَائَ فَقُوْلُوْا مِثْلَ مَا یَقُوْلُ الْمُؤَذِّنُ۔)) یعنی: جب تم ندا سنو تو اس طرح کہو جس طرح مؤذن کہتا ہے۔ (صحیح بخاری: ۶۱۱، صحیح مسلم: ۳۸۳) استدلال:… چونکہ ندا کا لفظ عام ہے، اس کا اطلاق اذان اور اقامت دونوں پر ہوتا ہے، اس لیے اقامت کے کلمات کا جواب بھی دینا چاہیے۔ لیکنیہ استدلال محل نظر ہے، کیونکہ اس موضوع کی کئی روایات میں صرف اذان کو موضوع بحث بنا کر اس کے کلمات کا جواب دینے کا حکم دیا گیا ہے، اس لیےیہاں بھی ندا کے لفظ کو اذان پر محمول کرنا چاہیے۔ اس حدیث کے لفظ مؤذن سے بھییہ اشارہ ملتا ہے کہ اس حدیث میں ندا سے مراد اذان ہے۔ وگرنہ جہاں بھی لفظ ندا اور مؤذن استعمال ہو گا، ان سے اذان اور اقامت دونوں کو مراد لیا جائے گا، مثلا: سیّدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ((مَنْ قَالَ حِیْنَیَسْمَعُ النِّدَائَ: اَللّٰھُمَّ رَبَّّ ھٰذِہِ الدَّعْوَۃِ التَّامَّۃِ … … حَلَّّتْ لَہٗشَفَاعَتِیْیَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔)) (صحیح بخاری: ۶۱۴) ہماری رائے یہ ہے کہ کسی واضح دلیل سے اقامت کے کلمات کا جواب دینا ثابت نہیں ہوتا، اس لیےیہ اہتمام نہیں ہونا چاہیے۔ اس موضوع کی درج ذیل حدیث واضح ہے، لیکن اس کی سند کمزور ہے: سیّدنا ابو امامہ یا کسی دوسری صحابی سے مروی ہے کہ حضرت بلال ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اقامت کہنا شروع کی، جب انھوں نے قَدْ قَامَتِ الصَّلَاۃُ کہا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اَقَامَھَا اللّٰہُ وَ اَدَامَھَا (اللہ اس کو قائم دائم رکھے) اور دیگر کلمات کے جواب میں اسی طرح کہا جیسے سیّدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی (اذان والی) حدیث میں گزراہے۔ (ابوداود: ۵۲۸) یہ حدیث تین وجوہات کی بنا پر ضعیف ہے: ۱۔محمد بن ثابت عبدی ضعیف ہے۔ ۲۔ رجل من اہل الشام مبہم یعنی مجہول ہے۔ ۳۔شہر بن حوشب متکلم فیہ ہے۔