Blog
Books
Search Hadith

امام مہدی کا ظہور اور اس کی مدتِ قیام

۔ (۱۲۹۲۵)۔ وَعَنْ عَلِیٍّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اَلْمَہْدِیُّ مِنَّا اَھْلَ الْبَیْتِیُصْلِحُہُ اللّٰہُ فِیْ لَیْلَۃٍ۔)) (مسند احمد: ۶۴۵)

سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مہدی ہم اہل بیت میں سے ہو گا، اللہ تعالیٰ ایک رات میں اس کی اصلاح فرمائے گا۔
Haidth Number: 12925
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۲۹۲۵) تخریج: صحیح، قالہ الالبانی، أخرجہ ابن ماجہ: ۴۰۸۵(انظر: ۶۴۵)

Wazahat

فوائد:… اصلاح کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس پر رجوع کرے گا، اس کو توفیق دے گا اور اس کی رشد و ہدایت اس کو الہام کرے گا، پہلے اس میں ایسے اوصاف نہیں ہوں گے۔ شیخ البانی ‌رحمتہ ‌اللہ ‌علیہ کہتے ہیں: شیخ غزالی نے کہا: میں تو ایک طالب علم ہوں، بہرحال میرے علم کے مطابق تو کسی واضح حدیث میں امام مہدی کا ذکر نہیں آتا اور اگر کوئی صریح حدیث ہے تو وہ صحیح نہیں ہے۔ میں (البانی) کہتا ہوں: جنابِ غزالی! کون سے مشائخ نے آپ جیسے طالب علم کو ایسی روایات کی نفی کرنے کی تلقین کی؟ کیا وہ علمائے کلام تو نہیں ہیں، جن بیچاروں کے پاس حدیث کا علم ہے نہ راویانِ حدیث کا؟ اس دعوے کی کیا اہمیت ہے، جبکہ دوسری طرف علمائے حدیث نے مختلف احادیث کی روشنی میں امام مہدی کی آمد کو ثابت کر رکھا ہے۔ امام غزالی کو چاہیے تھا کہ وہ تصحیح و تضعیف کے قانون کو سامنے رکھتے ہوئے قرآن و حدیث اور ان سے صادر ہونے والے احکام و مسائل کا مراجعہ کرتے اور مسلانوں کو خواہ مخواہ شک میں نہ ڈالتے۔ میرے مسلمان بھائی! عصر حاضر میں اکثر مسلمان راہِ مستقیم سے منحرف ہو چکے ہیں، یہ ذاتی اختراعات اور خود ساختہ آراء کی روشنی میں شریعت کی مختلف نصوص کی وضاحت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ اب امام مہدی کے خروج کے بعد ہی اسلام کو غلبہ وا قتدار نصیب ہو گا، (ان سے پہلے غلبۂ اسلام کی کوئی صورت نہیں)۔ یہ بے سر و پا دعوی اور ضلالت و گمراہی ہے، جو شیطان نے اکثر لوگوں اور بالخصوص صوفیوں کے دلوں میں القاء کر دی ہے۔ حالانکہ امام مہدی کی آمد میں جتنی احادیث ِ نبویہ مروی ہیں، کسی ایک سے بھی یہ دعوی ثابت نہیں ہوتا۔ اتنا ضرور ہے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مسلمانوں کو ایسے شخص کے ظہور کی خوشخبری سنائی، جو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے اہل بیت میں سے ہو گا اور وہ اسلام کے احکام کی روشنی میں فیصلہ کرنے کے ساتھ ساتھ عدل و انصاف کو عام کر دے گا، حقیقت میں وہ ان مجدِّدین میں سے ہو گا، جن کو اللہ تعالیٰ ہر صدی کے بعد بھیجتا ہے۔ اس کا یہ معنی نہیں کہ ہم دین کی تجدید کی خاطر علم و عمل کے لیے جد و جہد ترک کر دیں۔ اسی طرح امام مہدی کی آمد کا یہ معنی بھی نہیں کہ ہم زمین میں اللہ تعالیٰ کی شریعت کے نفاذ کے لیے کوئی کوشش نہ کریں اور ان کی آس میں بیٹھ جائیں۔ ہم نے عوام الناس کی جو بے سر و پا باتیں بیان کی ہیں، بعض صوفیوں سمیت کچھ لوگوں کو ان کا علم تو ہے، لیکن جب ان میں یہ وہم پیدا ہوتا ہے کہ امام مہدی کے خروج کا عقیدہ رکھنے سے یہ امور لازم تو آئیں گے، تو وہ فوراً انکار کرنے لگتے ہیں۔ یہ تو ایسے ہی ہے، جیسے کسی نے کہا: اس نے میرا علاج اس چیز کے ساتھ کیا، جس میں بیماری تھی۔ ایسے لوگ معتزلیوں سے مختلف نہیں ہیں کہ جنھوں نے اس بنا پر تقدیر کا انکار کر دیا کہ کچھ لوگ اس سے جبر کا استدلال کر رہے ہیں۔ یہ بیچارے ایک طرف تو جبر کا جواب نہ دے سکے اور دوسری طرف جس چیز کا عقیدہ رکھنا فرض تھا، اس کا انکار کر دیا۔ ایک فریق کا خیال ہے کہ تاریخ اسلامی شاہد ہے کہ بعض خود غرضوں اور بیوقوفوں نے امام مہدی کے قصے سے ناجائز فائدہ اٹھا کر لوگوں کو زبردست قتنوں میں مبتلا رکھا ہے، مثلاً جہیمان سعودی کا حرمِ مکی میں برپا کیا ہوا فتنہ۔ اس لیے ضروری ہے کہ سرے سے امام مہدی کی آمد کا ہی انکار کر دیا جائے، تاکہ فتنہ باز لوگوں کے فتنے دب جائیں، شیخ غزالی نے بھی اپنے کلام کے آخر میں اس چیز کی طرف اشارہ کیا تھا۔ اس فاسد خیال کے حق میں رائے دینے والے اُن باطل پرستوں کی طرح ہیں جنھوں نے آخری زمانے میں عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کا انکار اس بنا پر کیا ہے، کہ بعض کذاب اور دجّال لوگوں نے فتنہ برپا کرنے کے لیے اپنے آپ کو مسیح موعود ظاہر کیا ہے، مثال کے طور پر مرزا غلام احمد قادیانی۔ شیخ شلتوت جیسوں نے واضح طور پر عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کا انکار کر دیا اور بعض وضاحت تو نہیں کرتے، لیکن ان کی زبانیں اس قسم کے خیالات ِ فاسدہ اگلتی رہتی ہیں۔ ممکن ہے کہ میں حتمی طور پر یہ دعوی کر دوں کہ جن لوگوں نے امام مہدی کی آمد کا انکار کیا، انھوں نے عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کا بھی انکار کر دیا۔ میرے ہاں ان مُنکِرین کی مثال اس شخص کی طرح ہے، جو اللہ تعالیٰ کی الوہیت کا انکار اس چیز کو بنیاد بنا کر دے کہ بعض فرعونوں نے بھی الوہیت کا دعوی کیا ہے، اس لیے سرے سے اللہ تعالیٰ کے معبود ہونے کا ہی انکار کر دیا جائے، تاکہ فراعنہ باز آ جائیں۔ {فَھَلْ مِنْ مُّدَّکِرٍ} (سورۂ قمر: ۱۵) … کیا کوئی ہے نصیحت حاصل کرنے والا؟ (صحیحہ: ۱۵۲۹) ان بیچاروں کی مثال اس شخص کی طرح ہے جو ریت کی تپش سے بچنے کے لیے آگ میں گھس گیا، حق یہ ہے کہ شرعی علم و عمل کی روشنی میں فتنوں کا ردّ کیا جائے۔