Blog
Books
Search Hadith

جمعہ کے لیے، اور بارش والے دن اذان کہنے کا بیان

۔ (۱۳۰۵) عَنْ عَمْرِو بْنِ أَوْسِ أَنَّ رَجُلاً مِنْ ثَـقِیْفٍ أَخْبَرَہُ أَنَّہُ سَمِعَ مُؤَذِّنَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِیْیَوْمٍ مَطِیْرٍیَقُوْلُ حَیَّ عَلَی الصَّلَاۃِ حَیَّ عَلَی الْفَـلَاحِ صَلُّوْا فِی رِحَالِکُمْ۔ (مسند احمد: ۲۳۵۵۴)

سیّدنا عمر بن اوس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو بنو ثقیف کے ایک آدمی نے بتایاکہ اس نے بارش والے دن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے مؤذن کو حَیَّ عَلَی الصَّلَاۃِ حَیَّ عَلَی الْفَـلَاحِ کے بعد صَلُّوْا فِی رِحَالِکُمْ ( اپنے گھروں میں پڑھ لو) کہتے ہوئے سناتھا ۔
Haidth Number: 1305
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۳۰۵) تخر یـج: …اسنادہ صحیح۔ أخرجہ النسائی: ۲/ ۱۴بلفظ متقارب، وأخرجہ عبد الرزاق فی المصنف : ۱۹۲۵ (انظر: ۱۵۴۳۳، ۲۳۱۶۷)

Wazahat

فوائد:… ان الدینیسر یعنی: دین آسان ہے۔ کا ایک مفہوم اس حدیث میں بیان کیا گیا ہے کہ جہاں شریعت نے عام حالات میں مسجد میں نماز باجماعت کو ضروری قرار دیا، وہاں کسی عذر کی وجہ سے رخصت کی گنجائش بھی رکھ دی۔بارش یا سخت سردی کے موسم میں اذان میں مندرجہ طریقوں سے تبدیلییا اضافہ کیا جائے گا۔ ۱۔ حَیَّ عَلَی الصَّلَاۃِ، حَیَّ عَلَی الْفَـلَاحِ کے بعد صَلُّوْا فِیْ بُیُوْتِکُمْ (گھروں میں نماز پڑھ لو) کہنا، جیسا کہ مذکورہ بالا حدیث سے ثابت ہو رہا ہے۔ ۲۔ حَیَّ عَلَی الصَّلَاۃِ، حَیَّ عَلَی الْفَـلَاحِ کے بجائے صَلُّوْا فِیْ بُیُوْتِکُمْ گھروں میں نماز پڑھ لو کہنا۔ (بخاری، مسلم) ۳۔ سیّدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دورانِ سفرسردی والییا بارش والی رات کو مؤذن کو حکم دیا کہ وہ اذان دے اور آخر مین یہ کلمات کہہ دے: اَلَا صَلُّوْا فِیْ الرِّحَالِ (خبردار! اپنے گھروں میں ہی نماز پڑھ لو۔) (بخاری، مسلم، بعض روایات میں سفر کا ذکر نہیں ہے) ۳۔ اذان کے بعد وَمَنْ قَعَدَ فَـلَا حَرَجَ (اگر کوئی نہ آئے تو کوئی حرج نہیں) کہنا بھی درست ہیں۔ (مسند ابن ابی شیبہ: ۲/۵/۲، بیھقی: ۱/ ۳۹۸، صحیحہ: ۲۶۰۵) جمعہ کی اذانیں کتنی ہیں؟ مسنون طریقہیہی ہے کہ عام نمازوں کی طرح جمعہ کے لیے بھی ایک اذان دی جائے اور ایک اقامت کہی جائے، دو اذانوں کا یہی مفہوم ہے۔ عہد ِ نبوی، عہد صدیقی اور عہد فاروقی میں اور عہد عثمانی کی ابتدا میں اذان و اقامت کا یہی طریقہ رائج رہا، اب بھی اسی کو ترجیح دینی چاہیے۔ سیّدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بعض وجوہات کی بنا پر مسجد نبوی سے ایک میل دور زورائ مقام پر اذان کے کلمات کہلوانے کا اہتمام کیا تھا۔ آج کل مسجد کے اندر ہی پہلی اذان دینے کا استدلال سیّدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے عمل سے کرنا محل نظر ہے، کیونکہ وہ تو مقام زوراء پر اذان دلواتے تھے۔