Blog
Books
Search Hadith

سورج کے مغرب کی طرف سے طلوع ہونے اور توبہ کے دروازے کے بند ہونے کا بیان

۔ (۱۳۰۳۲)۔ وَعَنْ اَبِیْ ذَرٍّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: کُنْتُ مَعَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلٰی حِمَارٍ وَعَلَیْہِ بَرْذَعَۃٌ اَوْ قَطِیْفَۃٌ قَالَ: فَذٰلِکَ عِنْدَ غُرُوْبِ الشَّمْسِ فَقَالَ لِیْ: ((یَا اَبَا ذَرٍّ! ھَلْ تَدْرِیْ اَیْنَ تَغِیْبُ ہٰذِہٖ؟)) قَالَ: قُلْتُ: اَللّٰہُ وَرَسُوْلُہُ اَعْلَمُ، قَالَ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((فَاِنَّہَا تَغْرُبُ فِیْ عَیْنٍ حَامِئَۃٍ، تَنْطَلِقُ حَتّٰی تَخِرَّ لِرَبِّہَا عَزَّوَجَلَّ سَاجِدَۃً تَحْتَ الْعَرْشِ، فَاِذَا حَانَ خُرُوْجُہَا اَذِنَ اللّٰہُ لَھَا فَتَخْرُجُ فَتَطْلُعُ، فَاِذَا اَرَادَ اَنْ یُّطْلِعَہَا مِنْ حَیْثُ تَغْرُبُ، حَبَسَہَا، فَتَقُوْلُ: یَارَبِّ اِنَّ مَسِیْرِیْ بَعِیْدٌ فَیَقُوْلُ لَھَا: اُطْلُعِیْ مِنْ حَیْثُ غِبْتِ ، فَذٰلِکَ حِیْنٌ لَا یَنْفَعُ نَفْسًا اِیْمَانُہَا۔)) (مسند احمد: ۲۱۷۹۱)

سیدنا ابوذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ گدھے پر سوار تھا، اور اس گدھے پر ایک کمبل چادر تھی (جو جانور کے پالان کے نیچے رکھی جاتی ہے) یہ غروب آفتاب کا وقت تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے فرمایا: ابوذر ! کیا تم جانتے ہو کہ یہ سورج کہاں غروب ہوتا ہے؟ میں نے کہا: جی اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ دلدل والے ایک چشمہ میں غروب ہوتا ہے، پھر یہ چلتے چلتے اللہ تعالیٰ کے عرش کے نیچے جا کر سجدہ ریز ہوتا ہے، جب اس کے طلوع کا وقت ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے طلوع ہونے کی اجازت دیتا ہے اور یہ جا کر طلوع ہوجاتا ہے، لیکن جب اللہ تعالیٰ چاہے گا کہ یہ مغرب ہی کی طرف سے طلوع ہو تو اللہ تعالیٰ اسے روک لے گا، سورج کہے گا: اے رب! میرا سفر بہت طویل ہے، تو اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا: جو جہاں غروب ہوا ہے، وہیں سے طلوع ہو جا، یہ ایسا وقت ہوگا کہ اس وقت ایمان لانا کسی کے لیے مفید نہیں ہوگا۔
Haidth Number: 13032
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۳۰۳۲) تخریج: اسنادہ صحیح، أخرجہ مختصرا ابوداود: ۴۰۰۲ (انظر: ۲۱۴۵۹)

Wazahat

فوائد:… سورج کا دلدل والے چشمے میں غروب ہونا، اللہ تعالیٰ نے ذو القرنین کا قصہ بیان کرتے ہوئے فرمایا: {اِذَا بَلَغَ مَغْرِبَ الشَّمْسِ وَجَدَہَا تَغْرُبُ فِیْ عَیْنٍ حَمِئَۃٍ وَّوَجَدَ عِنْدَہَا قَوْمًا قُلْنَا یٰذَا الْقَرْنَیْنِ اِمَّآ اَنْ تُعَذِّبَ وَاِمَّآ اَنْ تَتَّخِذَ فِیْہِمْ حُسْنًا} … یہاں تک کہ جب وہ سورج غروب ہونے کے مقام پر پہنچا تو اسے پایا کہ وہ دلدل والے چشمے میں غروب ہو رہا ہے اور اس کے پاس ایک قوم کو پایا۔ ہم نے کہا اے ذوالقرنین! یا تو یہ ہے کہ تو (انھیں) سزا دے اور یا یہ کہ تو ان کے بارے میں کوئی اچھا سلوک کرے۔ (سورۂ کہف: ۸۶) ذوالقرنین ایک راہ پر چلا اور زمین کے نشانات کے سہارے زمین کی مغربی جانب کوچ کیا، یہاں تک کہ اب سورج کے غروب ہونے کی جگہ تک پہنچ گئے، یہ یاد رہے کہ اس سے مراد آسمان کا وہ حصہ نہیں جہاں سورج غروب ہوتا ہے کیونکہ وہاں تک تو کسی کا جانا ناممکن ہے، ہاں اس رخ جہاں تک زمین پر جانا ممکن ہے،ذوالقرنین پہنچ گئے ۔ الغرض جب انتہائے مغرب کی سمت پہنچ گئے تو یہ معلوم ہوا کہ گویا بحر محیط میں سورج غروب ہو رہا ہے، جو بھی کسی سمندر کے کنارے کھڑا ہو کر سورج کو غروب ہوتے ہوئے دیکھے گا تو بظاہر یہی منظر اس کے سامنے ہو گا کہ گویا سورج پانی میں ڈوب رہا ہے ۔ حَمِئَۃ یا تو مشتق ہے حَمَاۃ سے یعنی چکنی مٹی ۔ایک قرأت میں فِیْ عَیْنٍ حَامِیَۃٍ ہے، یعنی گرم چشمے میں غروب ہونا پایا۔ یہ دونوں قرأتیں مشہور ہیں اور دونوں درست ہیںاوران کے معنی میں بھی کوئی تفاوت نہیں، کیونکہ سورج کی نزدیکی کی وجہ سے پانی گرم ہو گا اور وہاں کی مٹی کے سیاہ رنگ کی وجہ سے اس کا پانی کیچڑ جیسا ہی ہو گا۔ سیدنا معاویہ علیہ السلام نے کعب ‌رحمتہ ‌اللہ ‌علیہ کے پاس آدمی بھیجا کہ بتلاؤ سورج کہاں غروب ہوتا ہے ؟ تورات میں اس کے متعلق کچھ ہے ؟ کعب ‌رحمتہ ‌اللہ ‌علیہ نے جواب دیا کہ اسے عربیت والوں سے پوچھنا چاہئے ، وہی اس کے پورے عالم ہیں۔ ہاں تورات میں تو میں یہ پاتا ہوں کہ وہ پانی اور مٹی میں یعنی کیچڑ میں چھپ جاتا ہے اور مغرب کی طرف اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا ۔ سورج کا عرش کے نیچے غروب ہونا اور سجدہ کرنا، اس قسم کے امور پر مشتمل احادیث ِ صحیحہ پر ایمان لانا ضروری ہے اور یہ ضروری نہیں ہے کہ ان کی کیفیت کو بھی سمجھا جائے، جبکہ سورج ہر وقت عرش کے نیچے ہی رہتا ہے اور کوئی گھڑی ایسی نہیں گزرتی، جس میں یہ اپنے ربّ کے سامنے مطیع نہ ہو رہا ہو، جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: {اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللَّہَ یَسْجُدُ لَہُ مَنْ فِی السَّمَاوَاتِ وَمَنْ فِی الْاَرْضِ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ وَالنُّجُوْمُ وَالْجِبَالُ وَالشَّجَرُ وَالدَّوَابُّ وَالْأَنْعَامُ وَکَثِیْرٌ مِّنَ النَّاسِ} … کیا تو دیکھتا نہیں کہ آسمانوں اور زمینوں میں جو کچھ ہے، وہ اللہ تعالیٰ کے لیے سجدہ کرتا ہے، مثلا سورج، چاند، ستارے، پہاڑ، درخت، چوپائے، مویشی اور بہت زیادہ لوگ۔ (سورۂ حج: ۱۸) ابو العالیہ نے کہا: آسمان میں موجود ہر ستارہ، سورج اور چاند غروب ہوتے وقت اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرتا ہے، پھر اس کو آگے بڑھنے کی اجازت دی جاتی ہے، جبکہ یہ بات بھی معلوم ہے کہ سورج ہر وقت فلک میں رہتا ہے، پس یہ ہر وقت فلک میں تسبیح بیان کرتا ہے اور ہر وقت سجدہ کرتا ہے اور ہر رات کو اجازت طلب کرتا ہے، جیسا کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا ہے، وہ اس طرح سجدہ کرتا ہے، جیسا اس کے لیے مناسب ہے اور اللہ تعالیٰ کے سامنے عاجزی و انکساری کا اظہار کرتا ہے۔