Blog
Books
Search Hadith

حضر موت کی جانب سے نکلنے والی آگ جو لوگو ںکو جمع کر دے گی

۔ (۱۳۰۵۸)۔ وَعَنْ حُذَیْفَۃَ بْنِ اُسَیْدِ نِ الْغِفَارِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: اَشْرَفَ عَلَیْنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِنْ غُرْفَۃٍ وَنَحْنُ نَتَذَاکَرُ السَّاعَۃَ فَقَالَ: ((لَا تَقُوْمُ السَّاعَۃُ حَتّٰی تَرَوْنَ عَشْرَ آیَاتٍ: طُلُوْعُ الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِہَا وَالدُّخَانُ وَالدَّابَّۃُ وَخُرُوْجُ یَاْجُوْجَ وَمَاْجُوْجَ وَخُرُوْجُ عِیْسٰی بْنِ مَرْیَمَ وَالدَّجَّالُ وَثَلاَثُ خُسُوْفٍ: خَسْفٌ بِالْمَغْرِبِ، وَخَسْفٌ بِالْمَشْرِقِ وَخَسْفٌ بِجَزِیْرَۃِ الْعَرَبِ وَنَارٌ تَخْرُجُ مِنْ قَعْرِعَدْنٍ تَسُوْقُ اَوْ تَحْشُرُ النَّاسَ، تَبِیْتُ مَعَہُمْ حَیْثُ بَاتُوْا، وَتَقِیْلُ مَعَہُمْ حَیْثُ قَالُوْا۔)) (مسند احمد: ۱۶۲۴۴)

سیدنا حذیفہ بن اسید غفاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: ہم قیامت کا تذکرہ کر رہے تھے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک بالاخانے سے ہماری طرف جھانکا اور پھر فرمایا: تم جب تک یہ دس نشانیاں نہیں دیکھ لیتے، قیامت قائم نہیں ہوگی: آفتاب کا مغرب کی طرف سے طلوع ہونا، دھواں، چوپایہ، یاجوج ماجوج کا خروج، عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کا نزول، دجال، ان تین مقامات میں دھنسنے کے واقعات: مغرب میں دھنسنا، مشرق میں دھنسنا اور جزیرۂ عرب میں دھنسنا اور عدن کے انتہائی مقام سے ایک آگ کا نکلنا، جو لوگوں کو ہانک کر لے جائے گی، جہاں لوگ رات گزاریں گے وہ آگ بھی وہاں رات گزارے گی اور جہاں وہ قیلولہ کریں گے وہ بھی وہاں قیلولہ کر ے گی۔
Haidth Number: 13058
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۳۰۵۸) تخریج: أخرجہ مسلم: ۲۹۰۱ (انظر: ۱۶۱۴۴)

Wazahat

فوائد:… عدن یمن کا مشہور شہر ہے، قاموس میں ہے کہ عدن یمن میں ایک جزیرے کا نام ہے۔ یہ آگ اس اعتبار سے قیامت کی پہلی علامت ہے کہ اس کے بعد دنیوی امور کا وجود ختم ہو جائے گا اور اس لحاظ سے آخری نشانی ہے کہ قیامت کی جتنی نشانیاں بیان کی گئیں ہیں، ان میں سب سے آخری یہ آگ ہو گی، اس کے بعد صور پھونک دیا جائے گا۔ حافظ ابن حجر کی بحث کا خلاصہ: کل چار حشر ہوں گے، دو دنیا میں اور دو آخرت میں۔ ۱۔ پہلا حشر، جس کاذکر سورۂ حشر میں ہے: {ہُوَ الَّذِیْ اَخْرَجَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ اَہْلِ الْکِتٰبِ مِنْ دِیَارِہِمْ لِاَوَّلِ الْحَشْرِ } (سورۂ حشر: ۲) … وہی (اللہ) ہے، جس نے اہل کتاب میں سے کافروں کو ان کے گھروں سے، پہلے حشر کے وقت نکالا۔ اس سے مراد یہودی قبیلے بنو نضیر کی جلاو طنی ہے، جو مدینہ منورہ سے نکل کر خیبر میں جاکر مقیم ہو گئے۔ بہرحال یہ حشر کی کوئی مستقل قسم نہیں ہے۔ ۲۔ دوسرے حشر کا ذکر ان احادیث میں کیا گیا ہے، جو قیامت کی علامت ہے، اس آگ کی جائے خروج کے بارے میں مختلف روایات ہیں، مثلاً مشرق سے، حجاز سے، حضرموت سے، عدن سے، ان میں جمع و تطبیق کی صورت یہ ہے کہ اس آگ کی ابتدا عدن کے انتہائی علاقے سے ہو گی، پھر یہ زمین میں پھیل جائے گی، اور یہ بھی ممکن ہے کہ دو تین مقامات سے آگ کی ابتداء ہو جائے، جیسا کہ قاضی عیاض نے کہا۔ ۳۔ مردوں کو ان کی قبروں سے اٹھا کر موقف کی طرف لے کر جانا، جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: {وَحَشَرْنَاھُمْ فَلَمْ نُغَادِرْ مِنْھُمْ اَحَدًا} ۴۔ حساب و کتاب کے بعد لوگوں کو جنت و جہنم کی طرف لے کر جانا۔ درج بالا بحث کی مزید وضاحت درج ذیل حدیث سے ہوتی ہے: سیدنا عبد اللہ بن عمرو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ((سَتَکُوْنُ ھِجْرَۃٌ بَعْدَ ھِجْرَۃٍ فَخِیَارُ اَھْلِ الْاَرْضِ اَلْزَمُھُمْ مُھَاجَرَ اِبْرَاہِیْمَ، وَیَبْقٰی فِیْ الْاَرْضِ شِرَارُ اَھْلِھَا تَلْفِظُھُمْ اَرْضُوْھُمْ، تَقْذَرُھُمْ نَفْسُ اللّٰہِ،وَتَحْشُرُھُمُ النَّارُ مَعَ الْقِرَدَۃِ وَالْخَنَازِیْرِ۔)) … ہجرت کے بعد ہجرت ہوتی رہے گی، زمین کے باسیوں میں سب سے بہتر لوگ وہ ہوں گے، جو ابراہیم علیہ السلام کے دارِ ہجرت (شام) کو سب سے زیادہ لازم پکڑنے والے ہوں گے اور (قربِ قیامت کے وقت) برے لوگ ہی رہ جائیں گے۔ ان کی زمینیں انہیں نکال باہر پھینکیں گی، اللہ عزوجل بھی انہیں برا جانے گا اور آگ ان لوگوں کو بندروں اور خنزیروں کے ساتھ جمع کرے گی۔ (ابوداود: ۲۴۸۲) آخری جملے کا معنی یہ ہے کہ آگ ان کو جمع کرے گی اور ان کو ہانکے گی، یہ لوگ آگ سے ڈر کر جانوروں کے ساتھ بھاگیں گے۔ شام کا علاقہ اس وقت آگ کے پہنچنے سے سالم ہو گا اور رحمت والے فرشتے اس کی حفاظت کریں گے۔