Blog
Books
Search Hadith

زمین میں بنائی جانے والی سب سے پہلی مسجداور مساجد بنانے کی فضیلت

۔ (۱۳۱۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ حَدَّثَنِیْ أَبِیْ ثَنَا عَفَّانُ ثَنَا أَبُوْ عَوَانَۃَ وَسُلَیْمَانُ الْأَعْمَشُ عَنْ إِبْرَاھِیْمَ الْتَّیمِیِّ عَنْ أَبِیْہِ قَالَ: کُنْتُ أَعْرِضُ عَلَیْہِ وَیَعْرِضُ عَلَیَّ وَقَالَ أَبُو عَوَانَۃَ: کُنْتُ أَقْرَأُ عَلَیْہِ وَیَقْرَأُ عَلَیَّ فِی السِّکَّۃِ فَیَمُرُّ بِالسَّجْدَۃِ فَیَسْجُدُ قَالَ: قُلْتُ: أَتَسْجُدُ فِی السِّکَّۃِ؟ قَالَ: نَعَمْ، سَمِعْتُ أَبَاذَرٍّ یَقُوْلُ سَأَلْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: قُلْتُ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! أَیُّ مَسْجِدٍ وُضِعَ فِی الْأَرْضِ أَوَّلاً؟ قَالَ: ((الْمَسْجِدُ الْحَرَامُ۔)) قَالَ: قُلْتُ: ثُمَّ أَیٌّ؟ قَال: ((ثُمَّ الْمَسْجِدُ الْأَ قْصٰی۔)) قَالَ: قُلْتُ: کَمْ بَیْنَہُمَا؟ قَالَ: ((أَرْبَعُوْنَ سَنَۃً۔)) ثُمَّ قَالَ: ((أَیْنَمَا أَدْرَ کَتْکَ الصَّلَاۃُ فَصَلِّ فَہُوَ مَسْجِدٌ، وَفِیْ رَوِایَۃٍ فَکُلُّہَا مَسْجِدٌ۔)) (مسند احمد: ۲۱۷۱۱)

ابو عوانہ کہتے ہیں: گلی میں (چلتے چلتے) میں ابراہیم تیمی پر اور وہ مجھ پر قرآن پڑھتے، جب ابراہیم سجدے والی آیت کی تلاوت کرتے تو سجدہ کرتے۔ میں نے کہا: آپ راستے میں سجدہ کرتے ہیں؟ انھوں نے کہا: ہاں! میں نے سیّدنا ابو ذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے سنا تھا ، انھوں نے کہا: میںنے اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے پوچھا:اے اللہ کے رسول! زمین میں سب سے پہلے کون سی مسجد تعمیر کی گئی؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مسجد حرام ۔ میں نے کہا: پھر کون سی؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: پھر مسجد اقصی ۔ میں نے کہا : دونوں کے درمیان کتنی مدت تھی ؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: چالیس سال۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جہاں بھی نماز تجھے پالے، وہاں نماز پڑھ لیا کر، وہی مسجد ہے۔ اور ایک روایت میں ہے: زمین ساری کی ساری مسجد ہے۔
Haidth Number: 1316
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۳۱۶) تخر یـج: …اسنادہ صحیح علی شرط الشیخین۔ أخرجہ ابو عوانۃ الاسفرائنی: ۱۱۶۱، وأخرجہ البخاری: ۳۳۶۶، ۳۵۲۵، ومسلم: ۵۲۰ من قولہ: سالت رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم … الی آخرہ (انظر: ۲۱۳۳۳، ۲۱۳۸۳)

Wazahat

فوائد:… مسجد حرام اور مسجد اقصی کے پہلے بانی کون تھے؟ جواب ملاحظہ فرمائیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: {اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَکَّۃَ} (سورۂ آل عمران: ۹۶) یعنی: اللہ تعالیٰ کا پہلا گھر جو لوگوں کے لیے مقرر کیا گیا وہی ہے جو مکہ میں ہے۔ عام نصوص سے ثابت ہوتا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام مسجد حرام کے اور سلیمان علیہ السلام مسجد اقصی کے بانی ہیں۔ علم تاریخ سے ثابت ہوتا ہے کہ ان دو ہستیوں میں ایک ہزار سے زائد برسوں کا فاصلہ ہے، لیکن اس حدیث میں ان دو مسجدوں کی درمیانی مدت چالیس سال بتلائی گئی ہے۔ یہ ایک اہم اشکال ہے، جس کا جواب درج ذیل ہے: ابراہیم علیہ السلام مسجد حرام کے اور سلیمان علیہ السلام مسجد اقصی کے بانی ٔ اول نہیں ہیں، جبکہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنی حدیث میں ان مساجد کی پہلی بِنا کی طرف اشارہ کیا ہے۔ ایک روایت کے مطابق آدم علیہ السلام نے کعبہ کی پہلی بار تعمیر کی، پھر ان کی اولاد زمین میں پھیل گئی، ممکن ہے کہ ان میں سے کسی نے مسجد اقصیٰ تعمیر کی ہو، پھر بعد میں ابراہیم علیہ السلام اور سلیمان علیہ السلام نے ان کی تجدید کی ہو اور اس تجدید کی وجہ سے ان کی تعمیر کو ان کی طرف منسوب کر دیا گیا ہو۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ آدم علیہ السلام نے ہییا فرشتوں نے یا سام بن نوح نے یایعقوب علیہ السلام نے مسجد اقصی تعمیر کی۔ ابن ہشام نے کتاب التیجان مین یہ واقعہ ذکر کیا ہے: جب آدم علیہ السلام نے کعبہ تعمیر کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کو حکم دیا کہ وہ بیت المقدس کی طرف جائیں اوراس کی تعمیر کر کے اس میں قربانی کریں۔ ابن ابی حاتم کی روایت کے مطابق سیّدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: طوفان کے زمانے میں بیت اللہ کو اٹھا لیا گیا تھا، پھر انبیا حج تو کرتے رہے لیکن ان کو اس کی جگہ کا علم نہیں تھا، پھر اللہ تعالیٰ نے بیت اللہ کو ابراہیم علیہ السلام کے لیے تیار کیا اور ان کو اس کے مقام کی خبر دی۔ امام بیہقی نے الدلائل میں سیّدنا عبد اللہ بن عمرو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کییہ مرفوع روایت بیان کی ہے: اللہ تعالیٰ نے جبریل علیہ السلام کو آدم علیہ السلام کی طرف بھیجا اور ان کو بیت اللہ بنانے کا حکم دیا، پس آدم علیہ السلام نے اس گھر کی تعمیر کی، پھر ان کو طواف کا حکم دیا گیا اور یہ کہا گیا: تم پہلے انسان ہو اور یہ پہلا گھر ہے، جسے لوگوں کے لیے تعمیر کیا گیا۔ (ملخص از فتح الباری: ۶/ ۵۰۴ ، ۴۹۶) یہ روایات جیسی بھی ہیں، بہرحال معلوم یہی ہوتا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام سے قبل کعبہ کی تعمیر کی گئی تھی، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کو پہلا گھر قرار دیا ہے، جبکہ یہ قطعی بات ہے کہ ابراہیم علیہ السلام سے پہلے آنے والے انبیا و رسل اور ان کی امتوں کے عبادت خانے ہوتے تھے، اس کا منطقی نتیجہیہ ہے کہ مسجد حرام کی تعمیر پہلے ہوئی ہو گی۔ واللّٰہ اعلم بالصواب۔ مزید درج ذیل اثر اور اس سے کیے جانے والا استدلال قابل غور ہے: سیّدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: پھر ابراہیم علیہ السلام ، سیدہ ہاجر اور ان کے بیٹے اسماعیل کو لے کر آئے اور ان کو بیت اللہ کے پاس ٹھہرایا اور ان کے پاس ایک تھیلا کھجوروں کا اور ایک مشکیز ہ پانی رکھا اور واپس چل دیئے۔ ام اسماعیل ان کے پیچھے چلیں اور بار بار ان سے کہا: ابراہیم! کہاں جا رہے ہو، کیا ہمیں اس وادی میں چھوڑ چلے ہو، جہاں کوئی انسان اور کوئی چیز نہیں ہے؟ لیکن ابراہیم علیہ السلام نے کوئی توجہ نہ کی۔ پھر ام اسماعیل نے کہا: کیا اللہ نے آپ کو اس طرح کرنے کا حکم دیا ہے؟ آپ علیہ السلام نے کہا: جی ہاں۔ پھر انھوں نے کہا: تو پھر اللہ ہمیں ضائع نہیں کرے گا… جب ابراہیم علیہ السلام ایک ٹیلے کے پاس پہنچے اور ام اسماعیل اور اسماعیل سے اوجھل ہوئے تو بیت اللہ کی طرف متوجہ ہوئے اور ہاتھ اٹھائے اور یہ دعا مانگی: {رَبَّنَا اِنِّیْ أَسْکَنْتُ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ بِوَادٍ غَیْرِ ذِیْ زَرْعٍ عِنْدَ بَیْتِکَ الْمُحَرَّمِ} یعنی: اے ہمارے ربّ! میں اپنی اولاد کو تیرے حرمت والے گھر کے پاس ایسی وادی میں چھوڑ کر جا رہا ہوں، جہاں کوئی کھیتی نہیں ہے۔ (صحیح بخاری: ۳۳۶۴) غور فرمائیں کہ اس واقعہ کے بعد ابراہیم علیہ السلام نے کعبہ کی تعمیر کی تھی، لیکن اس آیت اور واقعہ میں واضح الفاظ میں بیت اللہ کا ذکر کیا جا رہا ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہاں پہلے سے اللہ تعالیٰ کا یہ گھر موجود تھا، بعد میں ابراہیم علیہ السلام اس کی تجدید کی۔ واللہ اعلم بالصواب۔