Blog
Books
Search Hadith

زمین میں بنائی جانے والی سب سے پہلی مسجداور مساجد بنانے کی فضیلت

۔ (۱۳۱۷) عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطِّابِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ: ((مَنْ بَنٰی لِلّٰہِ مَسْجِداً یُذْ کَرُ فِیْہِ اسْمُ اللّٰہِ تَعَالٰی بَنیَ اللّٰہُ لَہُ بِہِ بِیْتًا فِی الْجَنَّۃِ۔)) (مسند احمد: ۱۲۶)

سیّدناعمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس شخص نے اللہ کے لیے ایسی مسجد بنائی جس میں اللہ کا ذکر کیا جائے تو اللہ اس کے لیے اس کے بدلے جنت میں ایک گھر بنائے گا۔
Haidth Number: 1317
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۳۱۷) تخر یـج: …حدیث صحیح۔ أخرجہ ابن ماجہ: ۷۳۵، ۲۷۵۸، وابن حبان: ۱۶۰۸، ۴۶۲۸ (انظر: ۱۲۶)

Wazahat

فوائد:… مسجد بنانے والے کا جنت میں گھر اس کی بنائی ہوئی مسجد کی مثل ہو گا۔ اس حدیث میں مثل سے کیا مراد ہے؟ مختلف جوابات دیئے گئے ہیں: ۱۔ شرف، فضل اور توقیر میں مماثلت مراد ہے، یعنی مسجد شرف والا گھر ہے، اسی طرح اس کا بدلہ بھی شرف والا ہو گا۔ ۲۔ گھر کے مسمّی میں مماثلت مراد ہے، یعنی جیسے اس نے اللہ کا گھر بنایا، اسی طرح اللہ بھی اسے ایک گھر عطا کرے گا، رہا مسئلہ نوعیت و کیفیت و کمیّت کا تو جنت اور دنیا کی چیزوں میں کوئی مماثلت نہیں پائی جاتی، ماسوائے ناموں کے۔ ۳۔مماثلت سے مراد مسجد کی دنیوی گھروں پر فضیلت مراد ہے، یعنی جیسے دنیا میں مسجد تمام دوسرے گھروں سے افضل ہوتی ہے، اسی طرح ایسے شخص کا گھر جنت میں اعلی و افضل ہو گا۔ حافظ ابن حجر نے کہا: لفظ مثل کے دو استعمالات ہیں: (۱) مطلق افراد کے لیے، جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: {فَقَالُوْا أَنُؤْمِنُ لِبَشَرَیْنِ مِثْلِنَا} اور(۲) مطابقت کے لیے، جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: {أُمَمٌ أَمْثَالُکُمْ} اگر پہلے معنی کو سامنے رکھا جائے تو زیادہ عمارتیں بھی ہو سکتی ہیں، اس سے مِثْلَہ پر وارد ہونے والے دس گناہ نیکی والے اشکال کا جواب بھی مل جاتا ہے … بہترین جواب یہ ہے کہ مثلیّت سے مراد کمیّت ہی ہے، لیکن ظاہر بات ہے کہ کیفیت میں جنت والا گھر بہت بہتر ہو گا، کیونکہ کتنے ہی ایسے گھر موجود ہیں، جو بیسیوں بلکہ سینکڑوں گھروں سے بہتر ہوتے ہیںیا پھر یہ کہا جا سکتا ہے کہ مماثلت سے مراد جنسِ عمارت ہے، یعنی جس نے اللہ تعالیٰ کا گھر تعمیر کیا، اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو بدلے میں گھر ہی عطا کرے گا۔ (فتح الباری: ۱/ ۷۱۸)