Blog
Books
Search Hadith

قیامت کے دن گنہگاروں کے حق میں شفاعت کا بیان قیامت کے دن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا اپنی امت کے حق میں شفاعت کرنے کاحریص ہونا

۔ (۱۳۰۹۷)۔ وَعَنِ ابْنِ بُرَیْدَۃَ عَنْ اَبِیْہِ بُرَیْدَۃَ الْاَسْلِمِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: دَخَلَ عَلٰی مُعَاوِیَۃَ فَاِذَا رَجُلٌ یَتَکَلَّمُ، فَقَالَ بُرَیْدَۃُ: یَامُعَاوِیَۃُ! فَأْذَنْ لِیْ فِی الْکَلَامِ، فَقَالَ: نَعَمْ وَھُوَ یَرٰی اَنَّہُ سَیَتَکَلَّمُ بِمِثْلِ مَا قَالَ الْآخَرُ، فَقَالَ بُرَیْدَۃُ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ: ((اِنِّیْ لَاَرْجُوْ اَنْ اَشْفَعَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ عَدَدَ مَا عَلٰی الْاَرْضِ مِنْ شَجَرَۃٍ وَمَدَرَۃٍ۔)) قَالَ: اَفَتَرْجُوْھَا اَنْتَ یَا مُعَاوِیَۃُ! وَلَایَرْجُوْھَا عَلِیُّ بْنُ اَبِیْ طَالِبٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌؟ (مسند احمد: ۲۳۳۳۱)

سیدنا بریدہ اسلمی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس گئے اور وہاں ایک آدمی (سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے بارے میں ناروا گفتگو) کر رہا تھا، سیدنا بریدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا: معاویہ! مجھے بات کرنے کی اجازت دو۔ سیدنامعاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: جی کرو بات، جبکہ ان کا خیال یہ تھا کہ یہ بھی اسی آدمی کی طرح بات کریں گے، لیکن سیدہ بریدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا:میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: مجھے امید ہے کہ میں قیامت کے دن روئے زمین پر موجود درختوں اور اینٹوں کے برابر لوگوں کے حق میں شفاعت کروں گا۔ معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ! اب آپ مجھے یہ بتائیں کہ تم اس سفارش کے امیدوار ہوسکتے ہیںاور سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نہیں ہوسکتے؟
Haidth Number: 13097
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Doubtful

ضعیف

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۳۰۹۷) تخریج: اسنادہ ضعیف لضعف ابی اسرائیل، أخرجہ الطبرانی فی الاوسط : ۴۱۱۲(انظر: ۲۲۹۴۳)

Wazahat

فوائد:… نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم میدانِ حشر میں سب سے پہلے سفارش کریں گے اور سب سے پہلے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی سفارش ہی قبول ہو گی، اگلے ابواب کا موضوع سفارش ہے، ہم ذیل میں اس مسئلہ کی حقیقت واضح کر دیتے ہیں: کسی کہنے والے نے کیا خوب کہا: مَا لِلْعِبَادِ عَلَیْہِ حَقٌّ وَّاجِبٗ کَلَّا، وَلَا سَعْیَ لَدَیْہِ ضَـائِعٗ اِنْ عُذِّبُوْا فَبِعَدْلِہٖ، اَوْ نُعِّمُوْا فَبِفَضْلِہٖ وَھُوَ الْکَرِیْمُ السَّامِعٗ اللہ تعالیٰ پر بندوں کا کوئی حق واجب نہیں ہے۔ ہر گز نہیں، لیکن اس کے ہاں محنت اور کوشش کو ضائع بھی نہیں کیا جاتا۔ اگر لوگوں کو عذاب دیا جائے گا تو وہ اس کے انصاف کا تقاضا ہو گا، یا اگر لوگوں پر انعام کیا جائے گا تو وہ اس کا فضل ہو گا، پس وہ کریم ہے اور سب کچھ سننے والا ہے۔ ہمارے ہاں سفارش کا مفہوم واضح ہے، سفارش کرنے والے کو جن تعظیمی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے، اتنی قدر و منزلت تو اس بیچارے کو بھی نصیب نہیں ہوتی، جو سفارش قبول کر کے ہماری ضروریات پوری کرتا ہے، دنیا و آخرت میں یہی قدر مشترک ہے کہ سفارش سے سفارش کرنے والے کے مقام و مرتبہ میں اضافہ ہوتا ہے۔ لیکن یہ واضح اور بنیاد ی فرق ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ دنیا میں زیادہ تر سفارش کرنے والے اپنا اثر و رسوخ استعمال کر کے اپنی بات منواتے ہیں اور جن کے پاس شفاعت کی جاتی ہے، وہ ماننے پر مجبور ہو جاتے ہیں، جبکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے، اللہ تعالیٰ خود سفارش کرنے والے کو منتخب کریں گے اور پھر اس کے لیے حد مقرر کریں گے، قرآن مجید میں کئی مقامات پر یہ موضوع دوہرایا گیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: {مَنْ ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَہٗ اِلَّا بِاِذْنِہٖ}(سورۂ بقرہ: ۲۵۵)… کون ہے جو اس کی اجازت کے بغیر اس کے سامنے سفارش کر سکے۔ دوسرے مقام پر ارشاد ہوا: {لَا یَتَکَلَّمُوْنَ اِلَّا مَنْ اَذِنَ لَہُ الرَّحْمٰنُ وَقَالَ صَوَابًاo} (سورۂ نبا: ۷۸: ۳۸) … وہ کوئی کلام نہیں کریں گے، مگر جس کو رحمن اجازت دے گا اور وہ ٹھیک بات زبان سے نکالے گا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سفارش کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے عرش کے نیچے اس کے حضور طویل سجدہ کریں گے، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اجازت ملے گی۔ اور ایک روایت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لیے حد مقرر کرے گا۔ (ملاحظہ ہو: مسند احمد، صحیح بخاری، صحیح مسلم) صحیح مسلم کی روایت کے مطابق ملائکہ، انبیاء اور دوسرے مومن سفارش کریں گے، لیکن شفاعت ِ عظمی اور دوسری اہم مقامات کے لیے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو منتخب کرناآپ کے عظیم و کریم ہونے کی علامت ہے۔ یہ شافع محشر ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہی ہیں کہ جو میدانِ حشر میں سب سے پہلے اور ایسے نازک موقع پر سفارش کریں گے کہ تمام دوسرے انبیا و رسل اس موقع سے گھبرائے ہوئے ہوں گے۔ سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ((… وَاَوَّلُ مَنْ یَنْشَقُّ عَنْہُ الْقَبْرُ، وَاَوَّلُ شَافِعٍ وَاَوَّلُ مُشَفَّعٍ۔)) … سب سے پہلے میری قبر پھٹے گی اور سب سے پہلے سفارش کرنے والا بھی میں ہوں گا اور سب سے پہلے شفاعت قبول بھی میری ہو گی۔ (صحیح مسلم: ۲۲۷۸) اس موقع پر آٹھویں صدی کے امام ابن ابی العز الحنفی ‌رحمتہ ‌اللہ ‌علیہ کی بحث کا خلاصہ پیش کرنا ضروری ہے، وہ (شرح العقیدۃ الطحاویۃ: صـ ۱۹۷ الی ۲۰۴) میں کہتے ہیں: شفاعت کی آٹھ اقسام ہیں، پہلی سات اقسام نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ خاص ہیں اور آخری قسم میں بھی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا بھرپور حصہ پایا جاتا ہے: الشفاعۃ الاولي: یہ شفاعت ِ عظمی ہے، جو ہمارے نبی ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا خاصہ ہے، بلکہ اس موقع پر بقیہ انبیاء و رسل گھبرائے ہوئے ہوں گے اور نفسی نفسی کی صدائیں بلند کر رہے ہوں گے۔ اس سفارش کے بعد اللہ کی مخلوق کا حساب و کتاب شروع ہو گا۔ الشفاعۃ الثانیۃ والثالثۃ: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا ان لوگوں کے لیے جنت کی سفارش کرنا جن کی حسنات و سیئات برابر برابر ہوں گی اور بعض ایسے لوگوں کو جہنم میں داخل نہ کرنے کی سفارش کرنا، جن کے بارے میں آگ کا حکم دیا چکا ہو گا۔ الشفاعۃ الرابعۃ: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا بعض جنتی لوگوں کے لیے بلندی ٔ درجات کی سفارش کرنا۔ الشفاعۃ الخامسۃ: بعض لوگوں کے حق میں یہ سفارش کرنا کہ وہ حساب و کتاب کے بغیر جنت میں داخل کیے جائیں، ممکن ہے کہ اس صورت کا سیدنا عکاشہ بن محصن ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ والی حدیث سے استدلال کیا جائے۔ الشفاعۃ السادسۃ: بعض مستقل جہنمیوں کے حق میں یہ سفارش کرنا کہ ان کے عذاب میں تخفیف کر دی جائے، جیسا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے چچا ابو طالب کا مسئلہ ہو گا۔ الشفاعۃ السابعۃ: تمام مومنوں کے حق میں یہ سفارش کرنا کہ جنت میں ان کا داخلہ شروع کیا جائے، جیسا کہ صحیح مسلم کی حدیث ہے، سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ((اِنَّ اَوَّلَ شَفِیْعٍ فِیْ الْجَنَّۃِ۔)) یعنی: جنت میں داخل ہونے کے لیے پہلا سفارشی میں ہوں گا۔ الشفاعۃ الثامنۃ: جہنم میں داخل ہو جانے والے کبیرہ گناہوں کے مرتکبین کے حق میں سفارش کرنا، اس موضوع پر متواتر احادیث موجود ہیں۔ یہ واحد قسم میں جس میں دوسری انبیائ، فرشتے اور مومن بھی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرح سفارش کریں گے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم چار دفعہ یہ سفارش کریں گے۔