Blog
Books
Search Hadith

کوثر اور اس کی صفات کا بیان

۔ (۱۳۱۲۶)۔ وَعَنْہُ اَیْضًا اَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سُئِلَ عَنِ الْکَوْثَرِ؟ فَقَالَ: ((نَہْرٌ اَعْطَانِیْہِ رَبِّیْ، اَشَدُّ بَیَاضًا مِنَ اللَّبَنِ وَاَحْلٰی مِنَ الْعَسَلِ وَفِیْہِ طَیْرٌ کَاَعْنَاقِ الْجُزُرِ۔)) فَقَالَ عُمَرُ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! اِنَّ تِلْکَ لَطَیْرٌ نَاعِمَۃٌ فَقَالَ: ((اَکَلَتُہَا اَنْعَمُ مِنْہَا یَا عُمَرُ!)) (مسند احمد: ۱۳۳۳۹)

سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کوثر کے متعلق پوچھا گیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہ ایک نہر ہے، جو میرے ربّ نے مجھے عطا کی ہے، اس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ شیریں ہے او راس میں اونٹ کی گردن جیسے بڑے بڑے پرندے ہوں گے۔ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! وہ پرندے تو بڑے عمدہ ہوں گے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: عمر! ان کو کھانے والے ان سے بھی بہتر اور افضل ہوں گے۔
Haidth Number: 13126
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۳۱۲۶) تخریج: اسنادہ صحیح، أخرجہ الحاکم: ۲/ ۵۳۷، والنسائی فی الکبری : ۱۱۷۰۳(انظر: ۱۳۳۰۶)

Wazahat

فوائد:… سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: بَیْنَا رَسُولُ اللَّہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ذَاتَ یَوْمٍ بَیْنَ أَظْہُرِنَا إِذْ أَغْفَی إِغْفَائٰ ۃً ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَہُ مُتَبَسِّمًا فَقُلْنَا: مَا أَضْحَکَکَ یَا رَسُولَ اللَّہِ!؟ قَالَ: ((أُنْزِلَتْ عَلَیَّ آنِفًا سُورَۃٌ فَقَرَأَ {بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ۔ إِنَّا أَعْطَیْنَاکَ الْکَوْثَرَ۔ فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ۔ إِنَّ شَانِئَکَ ہُوَ الْأَبْتَرُ۔}۔)) ثُمَّ قَالَ: ((أَتَدْرُونَ مَا الْکَوْثَرُ؟)) فَقُلْنَا: اللّٰہُ وَرَسُولُہُ أَعْلَمُ قَالَ: ((فَإِنَّہُ نَہْرٌ وَعَدَنِیہِ رَبِّی عَزَّ وَجَلَّ عَلَیْہِ خَیْرٌ کَثِیرٌ ہُوَ حَوْضٌ تَرِدُ عَلَیْہِ أُمَّتِی یَوْمَ الْقِیَامَۃِ آنِیَتُہُ عَدَدُ النُّجُومِ۔)) … ایک دن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہمارے اندر موجود تھے، اچانک آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر ہلکی سی نیند طاری ہو گئی، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مسکراتے ہوئے سر اٹھایا، ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ کیوں مسکرا رہے ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مجھ پر ابھی ابھی ایک سورت نازل ہوئی ہے، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کی تلاوت کی: {بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ۔ إِنَّا أَعْطَیْنَاکَ الْکَوْثَرَ۔ فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ۔ إِنَّ شَانِئَکَ ہُوَ الْأَبْتَرُ۔} پھرآپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پوچھا: کیا تم جانتے ہو کہ کوثر کیا ہے؟ ہم نے کہا: اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ ایک نہر ہے، اللہ تعالیٰ نے مجھ سے اس کا وعدہ کیا ہے، اس میں بڑی خیر ہے، یہ حوض ہے، میری امت قیامت والے اس پر وارد ہو گی، اس کے برتن ستاروں کی تعداد کے برابر ہیں۔ (صحیح مسلم: ۶۰۷)سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے یہ آیت {اِنَّا اَعْطَیْنَاکَ الْکَوْثَر}پڑھی اور کہا: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((اُعْطِیْتُ الْکَوْثَرَ، فَاِذَا ھُوَنَھْرٌ یَجْرِیْ (کَذَا عَلٰی وَجْہِ الْاَرْضِ) وَلَمْ یَشُقَّ شَقًّا، فَاِذَا حَافَتَاہُ قِبَابُ اللُّؤْلُوئِ، فَضَرَبْتُ بِیَدِيْ اِلٰی تُرْبَتِہٖ، فَاِذَا ھُوْ مِسْکَۃٌ ذَفِرَۃٌ، وَاِذَاحَصَاہُ اللُّؤْلُؤُ۔)) … اور کہا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مجھے کوثر عطا کی گئی ہے، وہ ایک نہر ہے جو بغیر شق کے سطحِ زمین پر چلتی ہے، اس کے کناروں پر موتیوں کے قبے ہیں، میں نے اپنا ہاتھ اس کی مٹی پر مارا تو کیا دیکھا کہ وہ تو انتہائی تیز مہکنے والی کستوری ہے اور اس کی کنکریاں بھی موتی ہیں۔ (احمد: ۳/۱۵۲، صحیحہ:۲۵۱۳) شیخ البانی ‌رحمتہ ‌اللہ ‌علیہ کہتے ہیں کہ امام ابن قیم ‌رحمتہ ‌اللہ ‌علیہ نے (حادی الأرواح: ۱/ ۲۸۶) میں کہا کہ ابن ابی الدنیا اپنی سند کے ساتھ سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے بیان کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں: میرا خیال ہے کہ تم لوگ یہ سمجھتے ہو کہ جنت کی نہریں زمین میں لمبے کھڈوں کی طرح ہوں گی، حالانکہ معاملہ اس طرح نہیں ہے۔ جنت کی نہریں تو سطحِ زمین پر چلنے والی ہیں، ایک کنارہ موتی کا ہو گا اور دوسرا یاقوت کا اور ان کی مٹی اذفر کستوری ہو گی۔ معاویہ بن قرہ نے پوچھا: اذفر کیا ہوتا ہے؟ انھوں نے کہا: اس کستوری کو کہتے ہیں جو خالص ہو اور اس میں کسی اور چیز کی آمیزش نہ ہو۔ (یعقوب بن عبید صدوق ہے، باقی سند صحیح ہے، ابن مردویہ نے اپنی تفسیر میں اس روایت کو مرفوعا پیش کیا ہے، لیکن ان کی سند میں مہدی بن حکیم ہے، جس کے حالات نہیں مل سکے۔ موقوف روایت صحیح ہے، لیکن اس کا حکم مرفوع والا ہی ہے، کیونکہ ایسی بات رائے سے نہیں کہی جا سکتی۔ مسروق نے {مَائٍ مَّکْسُوْب}کی تفسیر کرتے ہوئے کہا کہ اس سے مراد وہ پانی ہے جو کھڈوں کے بغیر چلتا ہو گا۔ میں (البانی) کہتا ہوں: ابن مردویہ نے (الدر المنثور: ۶/ ۴۰۲) میں سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے {اِنَّا اَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثَر}کی تفسیر نقل کی ہے، انھوں نے کہا کہ جنت میں ایک نہر کو کوثر کہتے ہیں، اس کی زمین میں گہرائی ستر ہزار فرسخ ہے۔ منذری نے اس قول کو ابن ابی الدنیا کی طرف منسوب کیا اور اس کے ضعف کی طرف اشارہ کیا، میں تو کہتا ہوں کہ یہ قول منکر ہے، کیونکہ اس سے سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی روایت کی مخالفت ہو رہی ہے۔ واللہ اعلم۔ (صحیحہ: ۲۵۱۳)