Blog
Books
Search Hadith

زمین میں بنائی جانے والی سب سے پہلی مسجداور مساجد بنانے کی فضیلت

۔ (۱۳۲۳) عَنْ عَمْرِو بْنِ عَبَسَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((مَنْ بَنٰی لِلّٰہِ مَسْجِدًا لِیُذْ کَرَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ فِیْہِ بَنَی اللّٰہُ لَہُ بَیْتًا فِی الْجَنَّۃِ، وَمَنْ أَعْتَقَ نَفْسًا مُسْلِمَۃً کَانَتْ فِدْیَتَہُ مِنْ جَہَنَّمَ، وَمَنْ شَابَ شَیْبَۃً فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ کَانَتْ لَہُ نُورًا یَوْمَ الْقَیَامَۃِ۔)) (مسند احمد: ۱۷۱۴۹)

سیّدنا عمرو بن عبسہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس شخص نے اللہ کے لیے اس لیے مسجد بنائی کہ اللہ تعالیٰ کا اس میں ذکر کیا جائے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں گھر بنائے گا اور جس شخص نے کسی مسلمان غلام کو آزاد کیا تو وہ اس کے لیے جہنم کا فدیہ ہوجائے گی اور جو شخص اللہ کی راہ میں بوڑھا ہوا تو وہ بڑھاپا اس کے لیے قیامت کے دن نور ہوگا۔
Haidth Number: 1323
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۳۲۳) تخر یـج: …حدیث صحیح، وھذا اسناد ضعیف لابھام الراوی عن الصنابحی۔ أخرجہ ابوداود: ۳۹۶۶ مختصرا والنسائی: ۶/ ۲۷ دون ذکر بناء المسجد (انظر: ۱۷۰۲۰، ۱۷۰۲۴)

Wazahat

فوائد:… آخری جملے کی وضاحت: بوڑھا ہونے سے مراد بالوں کا سفید ہو جانا ہے، فضالہ بن عبید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے،نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا ((مَنْ شَابَ شَیْبَۃً فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ (وَفِی رِوَایَۃٍ: فِی اْلإِسْلَامِ) کَانَتْ لَہُ نُوْراً یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔)) قَالَ رَجُلٌ عِنْدَ ذٰلِکَ: فَإِنَّ رِجَالاً یَنْتِفُوْنَ الشَّیْبَ۔ فَقَالَ: ((مَنْ شَائَ فَلْیَنْتَفِ نُوْرَہُ۔)) یعنی: جو اللہ کی راہ میںیا اسلام میں بوڑھا ہو گیا، تو یہ چیز اُس کے لیے روزِ قیامت نور ہوگا۔ اس موقع پر ایک آدمی نے کہا: کئی لوگ تو اپنے سفید بالوں کو اکھاڑ دیتے ہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو چاہتا ہے اپنا نور اکھاڑتا رہے۔ (مسند احمد: ۶/ ۲۰، صحیحہ: ۳۳۷۱) شیو کرنا ویسے بھی ملعون فعل اور سنگین جرم ہے، بہرحال جب بال سفید ہو جائیں اور عمر بڑی ہو جائے تو اس جرم کی نوعیت میں مزید شدت پیدا ہو جاتی ہے۔ اس سے بڑی سعادت کیا ہو سکتی ہے کہ بالوں کے سفید ہونے میں مسلمان کا اپنا کوئی دخل یا ارادہ نہیں ہوتا، لیکن جو آدمی ان کو اپنا حسن سمجھتا ہے اور ان پر صبر کرتا ہے تو یہ اس کے لیے روزِ قیامت نور ہوں گے۔ (سبحان اللہ) جو شخص اللہ تعالیٰ کے عطا کئے ہوئے اس شرف کو قبول نہیں کرتا اور ان کو اکھاڑنا شروع کر دیتا ہے یا ان پر کالا رنگ ملنا شروع کر دیتا ہے، تو وہ اس فضل اور نور کا انکار کر رہا ہے جو اللہ تعالیٰ اسے بغیر کسی مطالبے کے عطا کرنا چاہتے ہیں۔ یادرہے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سفید بالوں کو مہندی وغیرہ سے رنگنے اور کالے رنگ سے اجتناب کرنے کی تعلیم دی ہے، لہٰذا مہندی وغیرہ لگانے سے اس فضیلت میں کوئی فرق نہیں آئے گا۔