Blog
Books
Search Hadith

محاسبہ کی سختی ، اہل ایمان کا مزید نیکیاں نہ کر لانے پر ندامت اور کفار کی ڈانٹ ڈپٹ کا بیان

۔ (۱۳۱۵۸)۔ وَعَنْ اَبِیْ مُوْسٰی الْاَشْعَرِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((وَالَّذِیْ نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہٖ! اِنَّ الْمَعْرُوْفَ وَالْمُنْکَرَ خَلِیْقَتَانِیُنْصَبَانِ لِلنَّاسِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ، فَاَمَّا الْمَعْرُوْفُ فَیُبَشِّرُ اَصْحَابَہُ وَیُوْعِدُھُمُ الْخَیْرَ وَاَمَّا الْمُنْکَرُ فَیَقُوْلُ: اِلَیْکُمْ اِلَیْکُمْ وَمَا یَسْتَطِیْعُوْنَ لَہُ اِلَّا لُزُوْمًا۔)) (مسند احمد: ۱۹۷۱۶)

سیدنا ابو موسیٰ اشعری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے! بے شک نیکیوں اور گناہوں کو مجسم شکل میں پیدا کر کے قیامت کے دن لوگوں کے سامنے لایا جائے گا۔ نیکی، نیکیاں کرنے والوں کو خوش خبریاں دے گی اور ان سے اچھے انجام کا وعدہ کرے گی اور گناہ ، گنہگاروں سے کہے گا: ہٹ جاؤ، ہٹ جاؤ، مگر وہ اس کے ساتھ ہی چمٹے رہیں گے۔
Haidth Number: 13158
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۳۱۵۸) تخریج: رجالہ ثقات رجال الشیخین، غیر ان الحسن البصری لم یسمع من ابی موسی، أخرجہ البیھقی فی شعب الایمان : ۱۱۱۸۰، والطیالسی: ۵۳۵، والبزار: ۳۲۹۶، والطبرانی فی الاوسط : ۸۹۲۰ (انظر: ۱۹۴۸۷)

Wazahat

فوائد:… ۱۔ اس فصل کی احادیث سے معلوم ہوا کہ کلام کرنا اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے ایک صفت ہے۔ ۲۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ہر بندے کے ساتھ براہِ راست کلام کرے گا۔ اور ان کے درمیان کوئی ترجمان نہیں ہوگا۔ ۳۔ نیز معلوم ہوا کہ انسانوں کے اعمال کو قیامت کے دن ایک شکل اور جسم دیا جائے گا اور وہ اعمال انسان کو دکھائی دیں گے۔ ۴۔ نیز معلوم ہوا کہ جہنم سے بچاؤ کے لیے انسان کو تدبیر کرتے رہنا چاہیے۔ ۵۔ جہنم سے بچنے کے لیے کسی بھی نیکی کا موقعہ ملے اسے انسان حقیر نہ سمجھے۔ حتیٰ کہ اگر اللہ تعالیٰ کی راہ میں پوری کھجور دینے کی توفیق نہ ہو تو آدھی کھجور ہی دے دے اگر یہ نیکی اللہ تعالیٰ کے ہاں قبول ہوجائے تو انسان کی مغفرت اور بلندی درجات کا ذریعہ بنے گی۔ ان شاء اللہ تعالیٰ ! ۶۔ نیز معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو مال و اولاد کے علاوہ دیکھنے اور سننے وغیرہ کی بھی جو صلاحیتیں اور نعمتیں عطا کی ہیں۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ان کا ذکر کر کے بندوں سے پوچھے گا کہ کیا میں نے تمہیں فلاں فلاں نعمتوں سے نہیں نواز ا تھا۔ ان کے نتیجے میں تم نے کیا کچھ کیا؟ ۷۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ انسان کے لیے اللہ تعالیٰ کے ہاں نیکیوں کا ثواب بے حد و بے حساب ہے۔ انسان اگر اپنی پیدائش کے دن سے بوڑھا ہو کر مرنے تک ساری زندگی اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں گزار دے۔ لیکن جب قیامت کے دن اعمال کا بدلہ اور ثواب دیکھے گا۔ تو اپنی زندگی بھر کی نیکیوں کو وہ معمولی سمجھے گا اور تمنا کرے گا کہ کاش مجھے دنیا میں واپس بھیج دیا جائے تو میں مزید نیکیاں کر کے اللہ تعالیٰ سے مزید اجر و ثواب حاصل کر سکوں۔ ۸۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ جہنم کا عذاب بہت سخت ہے۔ اور مال و دولت چونکہ انسان کے پاس نہیں ہوگا۔ اس لیے وہاں سے نجات کی کوئی صورت نہیں ہوگی۔ جہنمی لوگ تمنا کریں گے کہ کاش اگر ہمارے پاس دنیا بھر کی دولت ہو تو ہم وہ ادا کر کے جہنم سے رہائی کے لیے فدیہ دے دیں مگر ایسا کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میں نے تو تم سے اس سے بھی آسان مطالبہ کیا تھا کہ تم میرے ساتھ شرک نہیں کرو۔ ۹۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مشرک کا انجام جہنم ہے۔ ۱۰۔ نیز معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ سے آسان حساب کی دعا بھی کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ہمارا آسان حساب لے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ وہ ہمارے اعمال دیکھنے کے باوجود درگزر کر دے۔ ۱۱۔ اور اگر کسی کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ایسی پرسش کر لی کہ تم نے فلاں فلاں کام کیوں کیے اور فلاں کام نہیں کیے؟ تو ایسا آدمی ہلاک ہوجائے گا۔ اس کی نجات کی کوئی امید نہیں۔ ( نسأل اللہ تعالیٰ العافیۃ ، آمین) ۱۲۔ نیز معلوم ہوا کہ مسلمان کو اگر کوئی دکھ ، درد ، تکلیف یا پریشانی لاحق ہوحتیٰ کہ اسے کانٹا بھی چبھے تو یہ اس کے گناہوں کا کفارہ ہوتا ہے۔ ۱۳۔ قیامت کے دن کسی جن یا انسان سے اعمال کے بارے میں پوچھنے کی ضرورت ہی نہیں ہوگی۔ ہر آدمی اپنے چہرے سے پہچانا جائے گا کہ یہ کیسے اعمال کر کے آیا اور اس کا انجام کیا ہونے والا ہے؟