Blog
Books
Search Hadith

قیامت کے دن قصاص اور مظلوموں کو ان کے حقوق دلائے جانے کا بیان

۔ (۱۳۱۶۷)۔ وَعَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((ھَلْ تَدْرُوْنَ مَنِ الْمُفْلِسُ؟)) قَالَ: اَلْمُفْلِسُ فِیْنَایَارَسُوْلَ اللّٰہِ! مَنْ لَادِرْھَمَ لَہُ وَلَا مَتَاعَ۔ قَالَ: ((اِنَّ الْمُفْلِسَ مِنْ اُمَّتِیْ مَنْ یَّاْتِیْیَوْمَ الْقِیَامَۃِ بِصِیَامٍ وَصَلَاۃٍ وَزَکَاۃٍ وَیَاْتِیْ قَدْ شَتَمَ عِرْضَ ہٰذَا وَقَذَفَ ہٰذَا وَاَکَلَ مَالَ ہٰذَا فَیَقْعُدُ فَیَقْتَصُّ ہٰذَا مِنْ حَسَنَاتِہٖوَہٰذَامِنْحَسَنَاتِہٖفَاِنْفَنِیَتْ حَسَنَاتُہُ قَبْلَ اَنْ یَّقْضِیَ مَا عَلَیْہِ مِنَ الْخَطَایَا اُخِذَ مِنْ خَطَایَاھُمْ فَطُرِحَتْ عَلَیْہِ ثُمَّ طُرِحَ فِی النَّارِ۔)) (مسند احمد: ۸۰۱۶)

سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پوچھا: کیا تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہے؟ انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول ! ہمارے اندر مفلس وہ ہوتا ہے، جس کے پاس درہم اور دنیوی سازو سامان نہ ہو۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میری امت کا مفلس وہ ہے، جو قیامت کے دن روزے، نمازیں اور زکوتیں لے کر آئے گا، لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس نے کسی کی عزت پر ڈاکہ زنی کی ہو گی، کسی پر تہمت لگائی ہوگی اور کسی کا مال کھا یا ہو گا، ایسا آدمی بیٹھا ہوگا، ایک مظلوم آکر اس سے نیکیاں لے کر قصاص لے گا، پھر دوسرا آکر اس کی نیکیاں لے کر بدلہ لے گا، پس اگر اس کے مظالم کے بدلے پورے ہونے سے قبل اس کی نیکیاں ختم ہوگئیں تو مظلوموں کے گناہ اس پر ڈال دئیے جائیںگے اوربالآخر اسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔
Haidth Number: 13167
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۳۱۶۷) تخریج: أخرجہ مسلم: ۲۵۸۱ (انظر: ۸۰۲۹)

Wazahat

فوائد:… (۱) اس فصل کی احادیث سے معلوم ہو ا کہ قیامت کے دن مظلوموں کو ظالموں سے ان کے حقوق اور بدلے دلوائے جائیں گے حتیٰ کہ جانور جو کہ غیر مکلف ہیں۔ تاہم جس سینگ دار جانور نے کسی بغیر سینگ والے کو ٹکر مار کر اس پر ظلم کیا ہوگا تو مظلوم کو ظالم جانور سے بدلہ دلوایا جائے گا۔ (۲) بکریاں ایک دوسری کو ٹکرمارتی ہیں۔ رسو ل اللہ تعالیٰ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔ یہ ایک دوسری کو ٹکر کیوں مارتی ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عالم الغیب نہیںہیں۔ (۳) اس فصل کی حدیث سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام کو سماع حدیث کا کس قدر شوق ہوتا تھا۔ کہ محض ایک حدیث سننے کے لیے جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ایک اونٹ خرید کر مہینے بھر کا سفر کرکے سر زمین شام میں اور طبرانی کی روایت کے مطابق مصر گئے اور جا کر عبد اللہ بن انیس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے براہ ِ راست حدیث کا سماع کیا۔ (۴) نیز معلوم ہوا کہ عند الملاقات معانقہ کرنا بھی مستحب ہے۔ جیسا کہ جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ایک دوسرے سے معانقہ کیا۔ (۵) نیز معلوم ہوا کہ قیامت کے دن لوگوں کو برہنہ حالت میں ، غیر مختون اور خالی ہاتھ اٹھایا جائے گا۔ ان کے پاس درہم و دینار یاد نیوی مال و دولت نہیں ہوگا۔ (۶) نیز معلوم ہوا کہ جب تک سب لوگوں کو حقوق نہیں دلوا دئیے جائیں گے۔ اس وقت تک لوگ جنت یاجہنم میں نہیں جا سکیں گے۔ (۷) نیز معلوم ہوا کہ اس امت کا مفلس آدمی وہ نہیں جس کے پاس درہم و دینار نہ ہوں بلکہ حقیقی مفلس تو وہ ہے جس نے نیکیاں بہت کی ہوں اور ساتھ ہی لوگوں کے حقوق بھی تلف کئے ہوں تو قیامت کے دن اس کی نیکیاں مظلوموں کو دے کر ان کے حقوق پورے کیے جائیں گے یہاں تک کہ اس کی نیکیاں ختم ہوجائیں گے تو مظلوموں کے گناہ اس کے حساب میں ڈال دئیے جائیں گے اور پھر وہ جہنم رسید ہوگا۔ اس امت کا حقیقی مفلس یہ شخص ہے۔ (۸) اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ قیامت کے دن کسی پر ظلم نہیں ہوگا۔ اور ہر شخص کو اس کا حق مل کر رہے گا۔ حدیث سے معلوم ہو رہا ہے کہ حدیث تو انہوں نے سنی تھی، شوق یہ تھا کہ جس آدمی (عبداللہ بن انیس صحابی) نے یہ حدیث نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے براہِ راست سنی ہے، اس سے کسی واسطہ کے بغیر حدیث سنی جائے۔ اصول حدیث کی اصلاح میں سند عالی حاصل کرنے کے لیے سفر کیا۔ یہ اور زیادہ ان کے سماع حدیث کے شوق کی دلیل ہے۔ (عبداللہ رفیق)