Blog
Books
Search Hadith

مساجد میں بیٹھنے اور ان کی طرف جانے کی فضیلت اور ان سے قریب محلے والوں کی فضیلت کا بیان

۔ (۱۳۲۶) عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ عَنِ النَّبِیّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((إِنَّ لِلْمَسَاجِدِ أَوْتَادًا، اَلْمَلَئِکَۃُ جُلَسَائُ ھُمْ إِنْ غَابُوْا یَفْتَـقِدُوْنَہُمْ، وَإِنْ مَرِضُوْا عَادُوْھُمْ ، وَإِ نْ کَانُوْا فِیْ حَاجَۃٍ اَعَانُوْھُمْ۔)) وَقَالَ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((جَلِیْسُ الْمَسْجِدِ عَلَی ثَـلَاثِ خِصَالٍ، أَخٌ مُسْتَفَادٌ أَوْ کَلِمَۃٌ مُحْکَمَۃٌ أَوْ رَحْمَۃٌ مُنْتَظَرَۃٌ۔)) (مسند احمد: ۹۴۱۴)

سیّدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کچھ لوگ میخوں کی طرح مسجدوں میں بیٹھے رہتے ہیں، ان کے ہم مجلس فرشتے ہوتے ہیں، اگر وہ غائب ہو جائیں تو فرشتے انہیں تلاش کرتے ہیں، اگر وہ بیمار ہوں تو وہ ان کی بیمار پرسی کرتے ہیں اگر وہ کسی کام میں مصروف ہوں تو وہ ان کی اعانت کرتے ہیں۔ اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مسجد میں بیٹھنے والا تین خصلتوں پر ہوتا ہے: ایسا بھائی جس سے فائدہ حاصل ہو، یا کوئی محکم بات یا ایسی رحمت جس کا انتظار ہو۔
Haidth Number: 1326
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Doubtful

ضعیف

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۳۲۶) تخریـج:… اسنادھما ضعیف، ابن لھیعۃ سیء الحفظ، امام البانی ‌رحمتہ ‌اللہ ‌علیہ ‌ نے اس حدیث کو (صحیحہ: ۳۴۰۱) میں ذکر کیا اور کہا: جن لوگوں نے اس حدیث کو عبد اللہ بن لہیعہ کی وجہ سے ضعیف قرار دیا، ان کے ذہن میںیہ نکتہ نہ آسکا کہ اس مقام پر اس سے روایت کرنے والے قتیبہ بن سعید مصری ہیں اور ان کی روایت عبادلہ کی طرح صحیح ہوتی ہے، اور اس حدیث کا ایک شاہد بھی سیّدنا عبد اللہ بن سلام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے موقوفا مروی ہے، جو کہ مرفوع کے حکم میں ہے اور اس میں ((جَلِیْسُ الْمَسْجِدِ …)) کے الفاظ نہیں ہیں۔

Wazahat

فوائد:… آخری جملے کی وجہ یہ ہے کہ مسجد اسلامی بھائیوں کی گزرگاہ ہوتی ہے اور شرعی علوم کے ذکر اور رحمت کے نزول کا محل ہوتا ہے۔ اس لیے جو شخص مسجد میں بیٹھنے کا التزام کرتا ہے، تو وہاں سے گزرنے والے اس سے مستفید ہوتے ہیں، پھر تعلیم و تعلّم اور افتاء و استفتاء کے بہانے حکمت بھری باتیں ہوتی ہیں۔ نوری مخلوق بھی خاکی مخلوق کی خادم بن سکتی ہے، بشرطیکہ اللہ تعالیٰ سے لو لگا لی جائے۔ اس سے بڑھ کر کیا کہا جائے کہ مسجد اللہ تعالیٰ کا گھر ہے، مومنوں کی سجدہ گاہ ہے، وہ کتنی مبارک و مقدس جگہ ہو گی، جہاں برس ہا برس سے اللہ تعالیٰ کی تہلیلات، تسبیحات، تحمیدات اور تکبیرات کا تذکرہ کیا جا رہا ہے، جہاں سالہا سال سے اس کے کلام پاک کی کثرت سے تلاوتیں کی جا رہی ہیں، شیطانوں سے بچنے کے لیے مضبوط قلعہ مسجد ہے۔ جو مسجد سے محبت کرے گا، جو مسجد کو آباد کرنے میں حصہ ڈالے گا، جس کو وہاں سکون نصیب ہو گا، وہ کتنا سعادت مند اور خوش نصیب ہو گا۔ لیکن صد افسوس! امت ِ مسلمہ کی کثرت اس منصب سے کوسوں دور ہے اورنمازیوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ دو چار چار روپے جمع کر کے روایتی ڈیوٹی سر انجام دینے والے بطورِ ملازم ایک امام اور ایک خادم کا اہتمام کر لیا جائے، مسجد کے تقاضے پورے ہو جائیں۔ ایسا کرنے کے بعد کسی نمازی مین یہ رغبت نہیں رہتی کہ وہ مسجد میں جھاڑو پھیر دے، پہلے پہنچ کر اذان دے دے، نمازیوں کے لیے صفیں بچھا دے، وضو کے لیے پانی بھر دے … اس کے خام دماغ نے فیصلہ کیا اور یہ سمجھ بیٹھا کہ ماہوار پچاس روپے مسجد فنڈ دینے سے وہ بریء الذمہ ہو گیا ہے۔ قارئین کرام! اپنی روز مرہ مصروفیات کا جائزہ لیں اور منصبِ انسانیت اور منصبِ مومنیت کی روشنی میں اپنی حرکات و سکنات کو پرکھیں۔ سیّدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ((سَبْعَۃٌیُظِلُّھُمُ اللّٰہُ فِیْ ظِلِّہٖیَوْمَ لَا ظِلَّ اِلَّا ظِلُّہٗ…وَرَجُلٌقَلْبُہٗمُعَلَّقٌبِالْمَسْجِدِاِذَاخَرَجَمِنْہُحَتّٰییَعُوْدَ اِلَیْہِ …۔)) (صحیح بخاری، صحیح مسلم) یعنی: اللہ تعالیٰ سات قسم کے افراد کو اپنے سائے میں جگہ دے گا، جس دن اس کے سائے کے علاوہ کوئی سایہ نہیں ہو گا: (ان میں سے ایک قسم یہ ہے:) وہ آدمی جو مسجد سے نکلتا ہے تو اس کا دل مسجد کے ساتھ ہی معلق رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ واپس مسجد میں آ جائے۔ لہٰذا ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے گھروں میں نفلی نماز پڑھنے اور قرآن مجید کی تلاوت کرنے کا اہتمام کریں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کے گھروں کے بھی کچھ تقاضے ہیں، جب ہم کسی قریبی رشتہ دار کے گھر جانے میں تاخیر کرتے ہیں تو وہ مخصوص انداز میں شکوہ کرتا ہے، شاید اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے بھی ہم سے شکوہ کناں ہوں۔