Blog
Books
Search Hadith

تمام ان چیزوں کا بیان جس سے مساجد کو محفوظ رکھا جائے

۔ (۱۳۶۵) عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((لَاتَـقُوْمُ السَّاعَۃُ حَتّٰییَتَبَاھَی النَّاسُ فِی الْمَسْاجِدِ۔)) (مسند احمد: ۱۴۰۶۵)

سیّدناانس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی، حتیٰ کہ لوگ مساجد (کے بنانے) میں ایک دوسرے سے فخر کرنے لگ جائیں گے۔
Haidth Number: 1365
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۳۶۵) تخر یـج: …اسنادہ صحیح علی شرط مسلم۔ أخرجہ ابوداود: ۴۴۹، والنسائی: ۲/ ۳۲، وابن ماجہ: ۷۳۹، وابن خزیمۃ: ۱۳۲۲، وابن حبان: ۱۶۱۴(انظر: ۱۲۳۷۹، ۱۴۰۲۰)

Wazahat

فوائد:… فخر کرنے کی دو صورتیں ہیں: (۱) زبان سے اظہار کرنا، جیسا کہ آج کل لوگ یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ ان کی مسجد بہت خوبصورت اور وسیع ہے، اس میں لگا ہوا پتھر بڑا قیمتی ہے، اس کے مینار اتنے بلند ہیں، اس میں بچھا ہوا قالین اس قسم کا ہے، اس میں لکڑی کا کام بڑے ہنر کے ساتھ کیا گیا ہے، جبکہ سننے والے منتظم حضرات کو اس سے خوشی ہوتی ہو۔ (۲) فعل سے اظہار کرنا، مثلا مسجد کی تزیین و آرائش میں مبالغے سے کام لینا اور دل ہی دل مین یہ سمجھنا کہ ہماری مسجد باقی سب مسجدوں سے ممتاز ہے، بلکہ بعض دفعہ زبان سے اس کا اظہار بھی کر دینا۔ کوئی مانے یا نہ مانے، کسی نہ کسی صورت میں اکثر و بیشتر لوگوں مین یہ فخر اپنے دونوں قسموں کے ساتھ پایا جا رہا ہے، الا ما شاء اللہ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ عالیشان مسجدیں تعمیر کرنے والی حکومتیں اور لوگ ان حقائق کو تسلیم ہی نہیں کرتے، حالانکہ ان کے اقوال و افعال میں واضح طور پر یہ اشارات مل رہے ہوتے ہیں کہ ان کا مقصد دوسری مساجد سے مقابلہ ہے۔ ایسے لوگوں سے گزارش ہے کہ وہ درج ذیل بحث کا بغور مطالعہ کریں: ۱۔ سیّدنا ابو دردا اور سیّدنا عبادہ بن صامت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ((اِبْنُوْہُ عَرِیْشاً کَعَرِیْشِ مُوْسٰی۔)) یَعْنِی: مَسْجِدَ الْمَدِیْنَۃِ۔)) یعنی: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: موسی کے چھپر کی طرح اس کو تعمیر کر دو۔ (الفوائد المنتقاۃ للمخلص: ۹/ ۱۹۳/ ۱، دلائل النبوۃ للبیہقی: ۲/ ۵۴۲، مسند الشامیین للطبرانی: صـ ۴۲۵، الصحیحۃ:۶۱۶) مساجد کی تعمیر میں بلا شک و شبہ بہت بڑا اجرو ثواب ہے، یہ عمل حصول جنت کا بہت بڑا سبب ہے۔ اس سلسلے میں اللہ تعالیٰ تعاون کرنے والوں کو اجرِ عظیم سے نوازے (آمین)۔ بہرحال عصر حاضر میں اکثر مساجد کی انتظامیہ کی سوچوں کا مرکزو محور یہ بن چکا ہے کہ ان کی مسجد خوبصورت ترین ہونی چاہیے، آج کل ایک ایک مسجد پر کروڑوں روپے خرچ کیے جا رہے ہیں، جبکہ ہدایت او ر ان کی آبادی کامعاملہ تعمیر نو سے پہلے والا ہی نظر آتا ہے یا اس سے بھی کم۔ ۲۔ سیّدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ((مَا اُمِرْتُ بِتَشْیِیْدِ الْمَسْجِدِ۔)) یعنی: میں (محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) کو یہ حکم نہیںدیا گیا کہ مساجد کی تزئین و آرائش کروں۔ پھر سیّدنا ابن عباس نے خود کہا: ((لَتُزَخْرِفُنَّھَا کَمَا زَخْرَفَتْھَا الْیَھُوْدُ وَالنَّصَارٰی۔)) یعنی: تم مساجد کو اس طرح مزین کرو گے، جیسےیہود و نصاری نے (اپنی عبادت گاہوں کو) کیا تھا۔ (ابوداود: ۴۴۸) ۳۔ سعید بن ابی سعید سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ((إِذًا زَوَّقْتُمْ مَسَاجِدَکُمْ وَحَلَّیْتُمْ مَصَاحِفَکُمْ، فَالدِّمَارُ عَلَیْکُمْ۔)) یعنی: جب تم لوگ مساجد کو مزین کرو گے اور مصاحف کو خوبصورت بناؤ گے تو تم پر ہلاکت و بربادی آ پڑے گی۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ: ۱/ ۱۰۰/ ۲، الصحیحۃ: ۱۳۵۱) نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے عہدِ مبارک میں جہاد کے موقع پر کروڑہا روپوں کی مالیتوں کا فنڈ جمع کیا جاتا تھا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنی حیات ِ مبارکہ میں جتنا مالِ غنیمت حاصل کر کے اس کو لوگوں میں تقسیم کیا، اس کا تو اندازہ بھی نہیں لگایا جا سکتا ہے، لیکن جب مسجد نبوی کی تعمیر کا وقت آتا ہے تو اس کو موسیٰ علیہ السلام کے چھپر کا ڈیزائن دے دیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے خلفائے راشدین، بالخصوص سیّدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے سنہری عہدِ خلافت میں کثیر آمدنی کے انوکھے ذرائع عطا کیے، جن میں قیصر و کسری کے خزانوں کو بھی مسلمانوں پر لٹا دیا، لیکن مسجد نبوی کا عمارتی ڈیزائن نہیں بدلایا گیا۔ آخر ایسا کرنے میں کیا راز ہے؟ خیر و بھلائی اور تقوی و طہارت کا مرکز مسجد نبوی ہے، اس کے معمار محمد رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خود ہیں، مسجد حرام کے بعد اس کی فضیلت مسلّم ہے، اس میں ایک نماز کا ایک ہزار گنا سے زائد ثواب ملتا ہے، لیکن اس کو چھپر کی شکل میں پیش کیا جا رہا ہے۔ لہٰذا ہمیں بھی اپنے کیے پر غور و خوض کر کے مساجد کو آباد کرنے کی فکر کرنی چاہیے، نہ کہ اس کو خوبصورت سے خوبصورت بنانے کی اور نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرح شخصیتوں اور اقوام کے معماروں پر روپیہ پیسہ خرچ کر کے خدمت ِ اسلام میں اپنا حصہ ڈالنا چاہیے۔ یہ بات ذہن نشین کرنا پڑے گی کہ مسجد اللہ تعالیٰ کا گھر ہے اور اس کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ جگہ ہے، کیایہ کہنا مناسب نہ ہو گا کہ اس کے ڈیزائن اور بناوٹ کی ترتیب کی اجازت بھی گھر کے مالک یعنی اللہ تعالیٰ سے لی جائے گی؟ ہم اپنے معاشرے کے گھروں کی پرشکوہ اور پر جلال عمارتوں سے مرعوب ہو گئے اور ان سے مساجد کا تقابل اور موازنہ کر نا شروع کر دیا۔ اس معاملے مین یہ حقیقت انتہائی حیران کن ہے کہ جو لوگ مساجد پر بے حساب رقم خرچ کرتے ہیں، غور فرمائیں کہ دیواروں پر پردے لٹکائے جا رہے ہیں، منبر و محراب پر لاکھوں خرچ کیا جا رہا ہے، قسما قسم کی ٹائلیں لگائی جا رہی ہیں، قیمتی اور نقش و نگار والے قالین بچھائے جا رہے ہیں، وضو گاہوں اور طہارت خانوں کو مزین بنایا جا رہا ہے، مرکزی دروازوں کو دیدہ زیب بنایا جا رہا ہے،لیکن اسی مسجد میں جب خطیب، امام، خادم اور تعلیم قرآن کے سلسلہ میں بچوں کے مدرس کی تنخواہ کا مسئلہ زیر بحث آتا ہے تو انتہائی کنجوسی کا معاملہ کیا جاتا ہے اور بلا رورعایت لکھنا پڑے گا کہ انتظامیہ کے اکثر افراد کییہ خواہش ہوتی ہے کہ یہ لوگ فارغ البال نہ ہوں اور ان کے پنجوں میں جکڑے رہیں۔ اگر خدمت ِ اسلام ہی مقصود ہے تو یہ تضاد کیوں ہے؟ قارئین کرام! کیا آپ حیران ہوں گے کہ آج اپریل۲۰۱۰ ء کی بات ہے، ایک شخص مسجد میں امامت، خطابت، ساٹھ بچوں کو قرآن کی تعلیم دینے اور مسجد کی صفائی کرنے کا ذمہ دار ہے، مسجد اس کے گھر سے پانچ گھنٹوں کے سفر پر ہے، دو تین ماہ کے بعد اس کو دو تین دن چھٹی ملتی ہے، لیکن اس کی تنخواہ چھ ہزار روپے ہے، پانچ ہزار کا بندوبست ایک تنظیم کرتی ہے اور مسجد کے چودھری لوگ ایک ہزار روپیہ ماہانہ دے کر احسانِ عظیم کرتے ہیں اور اپنے امام کا احترام کرنا تو درکنار، اس کو اپنے ملازم کی حیثیت دینے کے لیے بھی تیار نہیں۔ اب یہی لوگ جب مسجد کو مزین کرنے پر خرچ کریں گے تو کیا ان کے اقدام کو خدمت ِ اسلام سمجھا جائے گا؟ (فالی اللہ المشتکی) نہ میں اس نقطے کو سمجھ پا رہا ہوںاور نہ سمجھنے کی کوشش کروں گا۔ بہرحال دعاگو ضرور ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کی خرچ کی ہوئی دولت قبول فرمائے اور ان کو مزید خلوص سے نواز دے۔