Blog
Books
Search Hadith

تمام ان چیزوں کا بیان جس سے مساجد کو محفوظ رکھا جائے

۔ (۱۳۶۷) عَنْ طَلْحَۃَ بْنِ عُبَیْدِ اللّٰہِ یَعْنِی بِْنَ کُرْزٍعَنْ شَیْخٍ مِنْ أَھْلِ مَکَّۃَ مِنْ قُرَیْشٍ قَالَ وَجَدَ رَجُلٌ فِیْ ثَوْبِہِ قَمْلَۃً فَأَخَذَھَا لِیَطْرَحَہَا فِی الْمَسْجِدِ، فَقَالَ لَہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((لَاتَفْعَلْ، ارْدُدْھَا فِیْ ثَوْبِکَ حَتّٰی تَخْرُجَ مِنَ الْمَسْجِدِ۔)) (مسند احمد: ۲۳۹۵۴)

سیّدناانس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مسجد میں اپنے صحابہ کے ساتھ تشریف فرما تھے، اس وقت ایک بدو آیا اور مسجد میں پیشاب کرنے لگا۔ آپ کے صحابہ کہنے لگے: ٹھہر جا ٹھہرجا۔ لیکن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس کا پیشاب نہ روکو، اسے چھوڑ دو۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے بلا کر فرمایا: یہ مساجد گندگی، پیشاب اور پائخانہ میں سے کسی چیز کے لیے درست نہیں،یہ تو صرف نماز، اللہ کے ذکر اور تلاوت ِ قرآن کے لیے ہیں۔ پھر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک آدمی کو فرمایا: اٹھ اور پانی کا ایک ڈول لا کر اس پر بہا دے۔ پس اس نے پانی کا ڈول لا کر اس پر ڈال دیا۔
Haidth Number: 1368
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۳۶۸) تخر یـج: …أخرجہ مسلم: ۲۸۵، وأخرجہ البخاری: ۲۱۹ ومسلم: ۲۸۴ مختصرا (انظر: ۱۲۹۸۴)

Wazahat

فوائد:… حدیث ِ مبارکہ میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے منفی اور مثبت اندازمیں مساجد کے آداب و مقاصد کی وضاحت کر دی ہے۔ یہ حدیث کئی اسباق و احکام پر مشتمل ہے: جاہل لوگوں کے ساتھ معاملہ بالعموم اور بالخصوص دین کی تعلیم میں ہمدردی کا ہونا چاہیے۔ مبلغ اور خطیب لوگوں کے لیے اس حدیث میں بہت بڑا سبق بیان کیا گیا ہے، انھیں سمجھنا چاہیے کہ شریعت کا مقصود یہ ہے کہ مجرم کی اصلاح ہو جائے، موقع پر یہ فیصلہ ہو جانا چاہیے کہ فلاں شخص کے لیے نرم رویہ مفید رہے گا یا سخت رویہ۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حکمت و دانائی اور رأفت و شفقت سے متصف تھے، یہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کیدانائی تھی کہ مسجد میں پیشاب کرنے والے بدّو کو دورانِ پیشاب اٹھایا جائے نہ اسے جھڑکا جائے، بصورتِ دیگر بڑی خرابی کا امکان پیدا ہو سکتا تھا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے اس کردار سے معلوم ہوا کہ ضروری نہیں کہ برائی کو روکنے کے لیے غیظ و غضب اور ڈانٹ ڈپٹ کا ماحول ہی پیدا کر دیاجائے، بلکہ حالات و واقعات کو دیکھ کر مصلِح کوئی نرم یا سخت رویہ اختیار کر سکتا ہے، بہرحال اقدام جو بھی ہو، نتیجہ خیز ہونا چاہیے۔ اس حدیث سے یہ بھی پتہ چلا کہ بڑے فساد سے بچنے کے لیے چھوٹے فساد کو اختیار کیا جا سکتا ہے۔ اس کی تفصیلیہ ہے کہ مسجد میں پیشاب کرنا واضح طور پر فساد ہے، لیکن ایسا کرنے والے کو فوراً اس کے کیے سے روکنا بڑی خرابی ہے، کیونکہ ممکن ہے کہ پیشاب روکنے کی وجہ سے اسے تکلیف ہو یا وہ اس چیز کو محسوس کر کے ایمان سے دور ہو جائے یا اس کا پیشاب نکلتا رہنے کی وجہ سے مسجد کا مزید حصہ متاثر ہو جائے۔ نتیجتاً آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے چھوٹے فساد کی پروا نہ کی۔ ایک فقہی اصطلاح اَخَفُّ الْمَفْسَدَتَیْن (دو فسادوں میں سے ہلکا فساد) کا یہی معنی و مفہوم ہے۔ مسجدکو پاک کرنے کے دو طریقے ہیں: ۱۔ نجاست پر پانی بہا دینا: اس طریقے سے اول تو نجاست کے اثرات زمین میں جذب ہو جائیں گے، اگر بچ گئے تو ہوا، سورج کی روشنی، لوگوں کے چلنے پھرنے اور مٹی کی ذاتی صلاحیت کی وجہ سے ختم ہو جائیں گے۔ بہرحال یہ ایک شرعی رخصت ہے، جسے بلا چون و چرا قبول کیا جانا چاہیے۔ ۲۔ زمین کا خشک ہو جانا اور نجاست کے اثرات ختم ہو جانا: سیّدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے زمانے میں مسجد میں سویا کرتا تھا، میں نوجوان آدمی تھا، لیکن ابھی تک میری شادی نہیں ہوئی تھی، میں دیکھتا تھا کہ کتے مسجد میں آتے جاتے اور پیشاب بھی کر دیتے تھے، مگر وہ (صحابہ) اس پر کوئی پانی نہ چھڑکتے تھے۔ (صحیح بخاری: ۱۷۴، ابو داود: ۳۸۲، واللفظ لہ، امام ابوداود نے اس حدیث پر ((فی طھور الارض اذا یبست۔)) جب زمیں خشک ہو جائے تو اس کے پاک ہونے کا بیان کا باب ثبت کیا ہے۔) شارح ابوداود علامہ عظیم آبادی نے کہا: اس حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ اگر زمین پر پڑنے والی نجاست سورج کی روشنییا ہوا کی وجہ سے خشک ہو جائے اور اس کے اثرات ختم ہو جائیں تو اسے پاک سمجھا جائے گا، پانی نہ چھڑکنے کا یہی مفہوم ہو سکتا ہے۔ (عون المعبود: ۱ / ۲۱۷) جس حدیث میں زمین کے متاثرہ حصے کی مٹی کو اٹھا لینے کا ذکر ہے، وہ انقطاع و ارسال کی وجہ سے متکلم فیہ ہے، جیسا کہ نصب الرایۃ : ۱/ ۲۱۲ میں ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر مٹی کو اٹھا لینا ہی کافی ہوتا تو اس پر پانی بہانا بے سود ہوتا۔ واللہ اعلم بالصواب