Blog
Books
Search Hadith

جو ران اور ناف کو چھپائے جانے والے حصوں میں شامل نہیں سمجھتا، اس کی دلیل

۔ (۱۳۹۵) عَنْ عُمَیْرِ بْنِ إِسْحَاقَ قَالَ کُنْتُ مَعَ الْحَسَنِ بْنِ عَلِیٍّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ فَلَقِیَنَا أَبُوْھُرَیْرَۃَ فَقَالَ أَرِنِیْ أُقَبِّلُ مِنْکَ حَیْثُ رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یُقَبِِّلُ فَقَالَ بِقَمِیْصِہِ قَالَ فَقَبَّلَ سُرَّتَہُ۔ (مسند احمد: ۷۴۵۵)

عمیر بن اسحاق کہتے ہیں کہ میں حسن بن علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما کے ساتھ تھا، سیّدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ہمیں ملے اور کہنے لگے: ادھر آئو میں تمہیں اس مقام پر بوسہ دوں جہاں میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو بو سہ دیتے ہوئے دیکھا تھا، پھر انھوں نے قمیص اٹھا کر ان کی ناف پر بوسہ دیا۔
Haidth Number: 1395
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Doubtful

ضعیف

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۳۹۵) تخریـج:… اسنادہ ضعیف، تفرد بہ عمیر بن اسحاق، والقول الفصل فیہ انہ حدیثہیقبل فی المتابعات والشواھد، وما انفرد بہ فضعیف۔ أخرجہ ابن حبان: ۵۵۹۳، والحاکم: ۳/ ۱۶۸،والبیھقی: ۲/ ۲۳۲ (انظر: ۷۴۶۲)۔

Wazahat

فوائد:… اس بحث سے متعلقہ مزید دلائل یہ ہیں: سیّدنا ابو ذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے میری ران پر ہاتھ مارا اور فرمایا: اس وقت تیرا کیا بنے گا، جب تو ایسی قوم میں ہو گا، جو نماز کو اس کے وقت سے مؤخر کر دیں گے، … … (صحیح مسلم: ۶۴۸) سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ((مَا بَیْنَ السُّرَّۃِ وَالرُّکْبَۃِ عَوْرَۃٌ۔)) یعنی: ناف سے گھٹنے تک ستر اور پردہ ہے۔ (ابوداود، مسند احمد، ارواء الغلیل: ۲۴۷، ۲۷۱) قارئین کرام! مذکورہ بالا دو ابواب میں مندرج احادیث سے دو مختلف مفہوم پیدا ہو رہے ہیں، ایک طرف تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ران کو پردہ قرار دے رہے ہیں اور دوسری طرف آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لوگوں کے سامنے اپنے ران مبارک کو بے پردہ بھی کر رہے ہیں۔ ہم بحث میں پردہ کے لیے لفظ عَورَہ استعمال کریں گے۔ جمہور علماء و فقہاء کا مسلک یہ ہے کہ ران پردہ ہے، جبکہ امام احمد، ایک روایت کے مطابق امام امالک اور اہل ظاہر کا یہ خیال ہے کہ مرد کی صرف قُبُل (اگلی شرم گاہ) اور دُبُر (پچھلی شرم گاہ) پردہ ہیں۔ امام شوکانی ‌رحمتہ ‌اللہ ‌علیہ ‌ نے جمہور کی تائید کرتے ہوئے کہا: حق بات یہ ہے کہ ران عورہ ہے، اس باب کی مختلف احادیث حجت بن جاتی ہیں، جبکہ ان کے بارے میں کلی حکم اور عام شریعت کا اظہار بھی پایا جاتا ہے۔ جن واقعات میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے ران کو ننگا کرنے کا ثبوت ملتا ہے، وہ مخصوص اور معین واقعات ہیں، ان میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خصوصیت کا احتمال بھی ہو سکتا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ ان کو اصل اباحت پر محمول کیا جائے، نیزیہ بھی ایک عام بات ہے کہ امت کے حق میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے قول کو فعل پر ترجیح دی جاتی ہے۔ (نیل الاوطار: ۲/ ۷۴) لیکن امام شوکانی کا یہ کلام اس مسئلہ میں اطمینان کے لیے کافی نہیں ہے، کیونکہ کسی واضح دلیل کے بغیر کسی چیز کو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا خاصہ نہیں قرار دیا جا سکتا اور اسی طرح آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا قول ہو یا فعل، دونوں امت مسلمہ کے حق میں حجت ہیں، کیونکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس بات کے زیادہ مستحق ہیں کہ اپنے ارشاد پر عمل کریں، اس سلسلے میں درج ذیل حدیث بھی قابل غور ہے۔ عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ((نُھِیْتُ عَنِ التَّعَرِّیْ۔)) وَذَاکَ قَبْلَ أَنْ یَّنْزِلَ عَلَیْہِ النُّبُوَّۃُ۔ یعنی: مجھے ننگا ہونے سے منع کیا گیا ہے۔ یہ نبوت کے نزول سے پہلے کا عمل ہے۔ (مسند طیالسی: ۲۶۵۹، صحیحہ: ۲۳۷۸) معلوم ہوا کہ اگر ران پردہ ہوتی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اسے ننگا نہ ہونے دیتے۔ امام ابن حزم ‌رحمتہ ‌اللہ ‌علیہ ‌ نے کہا: ران عورہ نہیں ہے، اگر یہ عورہ ہوتی تو اللہ تعالیٰ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جیسی معصوم اور مطہَّر شخصیت کو رسالت و نبوت کے دور میں ان کو ننگا نہ کرنے دیتا۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے تو نبوت سے پہلے اور بچپنے کے زمانے میں بھی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے عورہ کو ننگا ہونے سے بچائے رکھا، صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی روایت کے مطابق سیّدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ازار باندھ کر تعمیر کعبہ کے وقت پتھر منتقل کر رہے تھے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے چچا سیّدنا عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے آپ سے کہا: بھتیجے! اگر تم ازار کھول کر اس کو اپنے کندھے پر پتھروں کے نیچے رکھ لو (تو بہتر ہو گا)۔ لیکن جونہی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ازار کھول کر اپنے کندھے پر رکھا، بے ہوش ہو کر گر پڑے، اس واقعہ کے بعد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو ننگا نہیں دیکھا گیا۔ امام ابن حزم ‌رحمتہ ‌اللہ ‌علیہ ‌ سیّدنا ابو ذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی حدیث، جس کے مطابق آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کی ران پر ہاتھ مارا، کو مد نظر رکھ کر کہتے ہیں: اگر ران عورہ ہوتی تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنے مقدس ہاتھ سے ابو ذر کی ران کو نہ چھوتے، … … اور کسی مسلمان کے لیےیہ حلال نہیں ہے کہ وہ کسی انسان کی اگلی اور پچھلی شرم گاہ پر یا غیر محرم عورت کے وجود پر کپڑے کے اوپر سے ہاتھ مارے، (پس اگر ران پردہ ہوتی تو کسی کی ران پر ہاتھ نہ مارا جاتا)۔ خلاصۂ کلام: عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے اور اس کی کئی مثالیں بھی موجود ہیں کہ جب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنے قول کے ذریعے کسی چیز سے منع کرتے ہیں، لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے فعل میں اس کی مخالفت پائی جاتی ہو تو قول کے تقاضے کو مستحبّ و مندوب پر محمول کرتے ہیں اور فعل کو جواز پر۔ اس طرح سے دونوں دلائل پر عمل ہو جاتا ہے، یعنی بہتر یہ ہے کہ ران کا پردہ کیا جائے، جیسا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے حکم سے پتہ چلتا ہے، لیکن اگر یہ عضو ننگا ہو جائے تو کوئی حرج نہیں، کیونکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اس کا ثبوت ملتا ہے۔ اس تطبیق سے ثابت ہوا کہ ران عورۂ مخففہ ہے اور شرمگاہ عورۂ مغلظہ ہے۔ مذکورہ بالا مختلف دلائل کا یہی نتیجہ ثابت ہوتا ہے، بالخصوص فوائد میں ذکر کی گئی سیّدنا ابو ذر اور سیّدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما کی احادیث کا۔ واللہ اعلم۔ یہ اجتہاد بھی بہتراور مناسب ہے کہ فقہاء و محدثین کے درج ذیل دو قوانین کو سامنے رکھ کر اس سلسلے میں احتیاط برتی جائے: (۱)… اگر حظر اور اباحت میں بظاہر تناقض پیدا ہو جائے تو از راہِ احتیاط حظر کو مقدم کیا جاتا ہے، تاکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی حکم عدولی کا شبہ ہی ختم ہو جائے۔ اس باب میں حظر یہ ہے کہ ران کو ننگا نہ کیا جائے۔ (۲)… اگر دو احادیث کے مفہوم میں بظاہر تضاد پیدا ہو جائے اور ایک کا تعلق براء تِ اصلیہ سے ہو تو احتیاطاً دوسری کو متأخر سمجھ کر اس پر عمل کیا جائے گا۔ اس باب میں ران کے پردے کا لحاظ نہ کرنا براء ت ِ اصلیہ ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔ خلاصۂ کلام یہ ہے کہ ران، پردے والے مقامات میں سے ہے، لیکن اس کو ننگا کر لینے میں حرج نہیں ہے، بہرحال احتیاطیہ ہے کہ اس کو پردے میں ہی رکھا جائے، تاکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی نافرمانی کا اندیشہ ٹل جائے۔ ہمارے ہاں بعض کھیلیں کھیلتے وقت کھلاڑیوں کی رانیں ننگی ہوتی ہیں، اس سے پرہیز کرنا چاہیے۔