Blog
Books
Search Hadith

دوکپڑوں میں نماز کے مستحب ہونے اور ایک کپڑے میں جائز ہونے کا بیان اور صرف قمیص میں نماز پڑھنے والے شخص کا بیان کہ اگر شرمگاہ کھلنے کا اندیشہ ہو تو وہ کیا کرے

۔ (۱۴۱۶) عَنْ سَلَمَۃَ بْنِ الْأَ کْوَعِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قُلْتُ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! إِنِّیْ أَکُوْنُ فِی الصَّیْدِ فَأُصَلِّیْ وَلَیْسَ عَلَیَّ إِلَّا قَمِیصٌ وَّاحِدٌ؟ قَالَ: ((فَزُرَّہُ وَإِنْ لَمْ تَجِدْ إِلاَّ شَوْکَۃً۔)) (مسند احمد: ۱۶۶۳۷)

سیّدنا سلمہ بن اکوع ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں:میں نے کہا کہ اے اللہ کے رسول! چونکہ میں شکار میں ہوتا ہوں، تو کیا میںصرف قمیص میں نماز پڑھ سکتا ہوں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: (پڑھ سکتے ہو لیکن) اس کو بٹن لگا لو، اگرچہ کانٹے کے علاوہ اورکچھ نہ ملے۔
Haidth Number: 1416
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۴۱۶) تخریـج:… اسنادہ حسن، أخرجہ ابوداود: ۶۳۲، و، النسائی: ۲/۷۰، وابن خزیمۃ: ۷۷۷ (انظر: ۱۶۵۲۰، ۱۶۵۲۲)۔

Wazahat

فوائد:… اگر نمازی نے صرف قمیص پہنی ہوئی تو اسے چاہیے کہ بٹن وغیرہ کے ذریعے اس کو اوپر سے بند کر لے، وگرنہ اوپر سے ستر ننگے ہونے کا خطرہ ہو گا۔ ننگے سر نماز پڑھنا ہمارے ہاں نماز میں سر ننگا رکھنے کو بہت معیوب سمجھا جاتا ہے اور بسااوقات تو ایسے نمازی کی مخالفت کرنے کے لیے جس کے منہ میں جو آتا ہے وہ کہہ دیتا ہے۔ بہرحال شریعت کا اپنا مزاج اور پابندیاں ہیں۔ اس ضمن میں درج ذیل بحث پر غور کریں۔ مردوزن کے نماز کے لباس کے بارے میںدرج بالا ابواب میں کئی روایات گزر چکی ہیں، کسی ایک حدیث میں بھی مرد کے لیے سر ڈھانپنے کو نماز کا لباس نہیں قرار دیا گیا، بلکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اور کئی صحابہ سے ننگے سر نماز پڑھنا ثابت ہو گیا۔آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی درج ذیل حدیث پر غور فرمائیں: سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ((لَا تـُقْبَلُ صَلَاۃُ حَائِضٍ إِلاَّ بِخِمَارٍ۔)) یعنی: بالغہ عورت کی نماز بغیر اوڑھنی کے قبول نہیں ہوتی۔ (ابوداود: ۶۴۱، وتقدم فی ھذ المسند) اس حدیث سے واضح طور پر یہ پتہ چلتا ہے کہ سر کو ڈھانپنے کی قید عورت کے لیے ہے، مرد کی سر ننگے نماز ہو جاتی ہے۔ بعض لوگ یہ کہہ دیتے ہیں کہ اس وقت کپڑوں میں تنگی تھی، اب وسعت کے زمانے میں سر ڈھانپنا ضروری ہے۔ یہ محض ان کی خام خیالی ہے۔ خود نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے عہد ِ مبارک میں بعض مواقع پر بے شمار مال و دولت جمع ہوا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی حیات ِ مبارکہ میں بعض صحابہ کرام امیر تھے، تیسری بات جو اہم ہے کہ اگر سر کو ڈھناپنا ضروری ہوتا تو شریعت میں اس کی وضاحت کر دی جاتی۔ صحابہ کرام کے ادوار میںیقینا بہت مال و دولت جمع ہو گیا تھا۔ لیکن سیّدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے ایک کپڑے میں نماز پڑھنے کے بارے میں پوچھا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بھلا کیا ہر ایک کے پاس دو کپڑے ہیں۔ پھر ایک آدمی نے سیّدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے اسی قسم کا سوال کیا، آپ نے کہا: جب اللہ تعالیٰ نے وسعت پیدا کر دی ہے تو تم بھی وسعت سے کام لو، یعنی آدمی ازار اور چادر میںیا ازار اور قمیص میںیا ازار اور چوغے میں،یا شلوار اور چادر میں،یا شلواور قمیص میں،یا شلوار اور چوغے میںیا نیکر اور چوغے میںیا نیکر اور قمیص میں نماز پڑھے۔ (صحیح بخاری: ۳۶۵) معلوم ہوا کہ سیّدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے وسعت کے زمانے میں بھی سر کو ڈھانپنا نماز کا لباس نہیں سمجھا۔ یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ پگڑی باندھنا نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی سنت ہے اورشریف و معزز لوگوں نے اسی لباس کو اختیار کیا ہے، لیکن نماز میں اس کا اہتمام کرنے یا نہ کرنے سے نماز کے اجرو ثواب میں کوئی کمی بیشی نہیں ہو گی۔ قارئین کو یہ فرق سمجھنا چاہیے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے مختلف ملبوسات پہننا ثابت ہیں، لیکن ان سے یہ لازم نہیں آتا کہ ان کو نماز کے لیے ضروری سمجھ لیا جائے،مثلا موزے پہننا اور ان میںنماز پڑھنا۔ سیدسابق نے کہا: احناف کے نزدیک ننگے سر آدمی کی نماز میں کوئی حرج نہیں ہے، بلکہ وہ خشوع کی خاطر ننگے سر نماز پڑھنے کو افضل سمجھتے ہیں، بہرحال کوئی ایسی دلیل موجود نہیں ہے، جو نماز میں سر ڈھانپنے کی افضیلت پر دلالت کرے۔ (فقہ السنہ: ۱/ ۴۳) خلاصۂ کلام یہ ہے کہ سر ڈھانپنا نماز کے لباس میں سے نہیں ہے، اس لیے لوگوں کو خواہ مخواہ کی تنگیوں میں نہیں ڈالنا چاہیے، اور مسجدوں کو میل کچیل سے بھری ہوئی پلاسٹک وغیرہ کی بنی ہوئی ٹوپیوں سے پاک رکھنا چاہیے۔