Blog
Books
Search Hadith

نمازی کے آگے گزرنے والے آدمی وغیرہ کو روکنے کا بیان

۔ (۱۴۸۵) عَنْ أَبِیْ عُبَیْدٍ صَاحِبِ سُلَیْمَانَ قَالَ رَأَیْتُ عَطَائَ بْنَ یَزِیْدَ اللَّیْثِیَّ قَائِمًا یُصَلِّیْ مُعْتَمًّا بِعِمَامَۃٍ سَوْدَائَ مُرْخٍ طَرَفَہَا مِنْ خَلْفٍ مُصْفَرَّ اللَّحْیَۃِ، فَذْھَبْتُ أَمُرُّ بَیْنَیَدَیْہِ فَرَدَّنِیْ ثُمَّ قَالَ: حَدَّثَنِی أَبُو سَعْیِدٍنِ الْخُدْرِیُّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَامَ فَصَلّٰی صَلَاۃَ الصُّبْحِ وَھُوَ خَلْفَہٗفَقَرَأَفَالْتَبَسَتْعَلَیْہِ الْقِرَائَ ۃُ فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ صَلَاتِہِ قَالَ: ((لَوْ رَأَیْتُمُوْنِیْ وَإِبْلیِسَ فَأَھْوَیْتُ بِیَدِیْ فَمَا زِلْتُ أَخْنُقُہٗحَتّٰی وَجَدْتُّ بَرْدَ لُعَابِہِ بَیْنَ إِصَبَعَیَّ ھَاتَیْنِ، الإِْ بِہْاَمِ وَالَّتِیْ تَلیِْہَا وَلَوْلَا دَعْوَۃُ أَخِیْ سُلَیْمَانَ لَأَصْبَحَ مَرْبُوطًا بِسَارِیَۃٍ مِنْ سَوَارِی الْمَسْجِدِ یَتَلَاعَبُ بِہِ صِبْیَانَ الْمَدِیْنَۃِ فَمَنِ اسْتَطَاعَ مِنْکُمْ أَنْ لَّایَحُولَ بَیْنَہُ وَبَیْنَ الْقِبْلَۃِ أَحَدٌ فَلْیَفْعَلْ۔ (مسند احمد: ۱۱۸۰۲)

سلیمان کے ساتھی ابو عبید کہتے ہیں: میں نے عطا بن یزید لیثی کودیکھا، وہ نماز پڑھ رہے تھے، انھوں نے سیاہ رنگ کی پگڑی باندھ کر اس کا کنارہ پیچھے لٹکایا ہوا تھا اور داڑھی کو زرد کر رکھا تھا، میں ان کے آگے سے گزرنے لگا لیکن انہوںنے مجھے روک دیا، پھر کہا: مجھے سیّدنا ابوسعید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بیان کیا کہ ر سول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم صبح کی نماز پڑھ رہے تھے، وہ بھی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی اقتدا میں تھے، آپ نے قراء ـت کی لیکن قراء ت آپ پر خلط ملط ہونے لگی۔ جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: کاش تم مجھے اور ابلیس کو دیکھتے، میں نے اپنا ہاتھ جھکایا (اور اسے پکڑ لیا پھر) اس کا گلا گھونٹتا رہا حتی کہ مجھے اس کے لعاب کی ٹھنڈک ان دونوںانگلیوںیعنی انگوٹھے اور اس کے ساتھ والی کے درمیان محسوس ہوئی،اور اگر میر ے بھائی سلیمان علیہ السلام کی دعا نہ ہوتی تو وہ اس حال میں صبح کرتا کہ مسجد کے ستون کے باندھا ہوا ہوتا اور مدینہ کے بچے اس کے ساتھ کھیل رہے ہوتے۔ اس لیے تم سے جوشخص یہ طاقت رکھتا ہے کہ (اس کی نماز کے دوران) کوئی اس کے اور قبلہ کے درمیان حائل نہ ہو تو ایسا ہی کرے۔
Haidth Number: 1485
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۴۸۵) تخریـج:… اسنادہ حسن، أخرجہ مختصرا ابوداود: ۶۹۹ (انظر: ۱۱۷۸۰)۔

Wazahat

فوائد:… حضرت سلیمان کییہ دعا مراد ہے: {رَبِّ اغْفِرْلِیْ وَھَبْ لِیْ مُلْکًا لَّا یَنْبَغِیْ لِأَحَدٍ مِّنْ بَعْدِیْ} (ص: ۳۵) یعنی: انھوں نے کہا: اے میرے رب! مجھے بخش دے اور مجھے ایسی بادشاہت عطا فرما جو میرے بعد کسی شخص کے لائق نہ ہو۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ابلیس پر قابو تو پا لیا تھا، صرف اس کو باندھنا باقی تھا، اس کا جواب یہ ہے کہ یا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے از راہ تواضع ایسا نہ کیایا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اس سے زیادہ طاقت نہیں تھی۔ پہلی بات ہی زیادہ مناسب معلوم ہوتی ہے، کیونکہ ایک جِنّ کو اس طرح باندھ دینے سے حضرت سلیمان علیہ السلام کی بادشاہت سے تشبیہ لازم نہیں آتی تھی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کی دعا کا ادب کرتے ہوئے یہ کام بھی نہ کیا۔ حدیث ِ مبارکہ کا آخری حصہ قابل توجہ ہے کہ نمازی اپنے سامنے سترہ رکھے اور پھر کسی چیز کو اپنے سامنے سے نہ گزرنے دے۔