Blog
Books
Search Hadith

تکبیر تحریمہ وغیرہ کے وقت رفع الیدین کرنے کا بیان (رفع الیدین قبل از رکوع و بعد از رکوع)

۔ (۱۵۳۷) عَنْ مَیْمُونٍ الْمَکِّیِّ أَنَّہُ رَآی ابْنَ الزُّبَیْرِ عَبْدَاللّٰہِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَصَلّٰی بِھِمْ یُشِیْرُ بِکَفَّیْہِ حِیْنَیَقُوْمُ وَحِیْنَیَرْکَعُ وَحَیْنَ یَسْجُدُ وَحِیْنَیَنْہَضُ لِلْقِیَامِ فَیَقُومُ فَیُشِیْرُ بِیَدَیْہِ، قَالَ فَانْطَلَقْتُ إِلَی اِبْنِ عَبَّاسٍ فَقُلْتُ لَہُ إِنِّی قَدْ رَأَیْتُ ابْنَ الزُّبَیْرِ صَلّٰی صَلَاۃً لَمْ أَرَ أَحَدًا یُصَلِّیْھَا، فَوَصَفَ لَہُ ھٰذِہِ الإِْشَارَۃَ، فَقَالَ: إِنْ أَحْبَبْتَ أَنْ تَنْظُرَ إِلٰی صَلَاۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَاقْتَدِ بِصَلَاۃِ اِبْنِ الزُّبَیْرِ۔ (مسند احمد: ۲۳۰۸)

میمون مکی سے مروی ہے کہ انھوں نے عبد اللہ بن زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو دیکھا کہ وہ نماز پڑھا رہے تھے، جب وہ کھڑے ہوتے، رکوع کرتے ،سجدہ کرتے اور قیام کے لیے کھڑے ہوتے تو اپنی ہتھیلیوں سے اشارہ کرتے تھے۔میمون مکی کہتے ہیں: میں نے سیّدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس جا کر کہا کہ جو نماز ابن زبیر پڑھتا ہے، میں نے تو کسی کو ایسی نماز پڑھتے ہوئے نہیں دیکھا ، پھر انھوں نے ہاتھوں کے اشارے کا ذکر کیا۔ سیّدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے آگے سے کہا: اگر تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی نماز دیکھنا پسند کرتا ہے تو سیّدنا ابن زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی نماز کی اقتدا کر۔
Haidth Number: 1537
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Doubtful

ضعیف

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۵۳۷) تخریـج:… اسنادہ ضعیف، میمون المکی مجھول۔ أخرجہ ابوداود: ۷۳۹ (انظر: ۲۳۰۸)۔

Wazahat

فوائد:… رفع الیدین کے موضوع پر درج ذیل بحث مفید رہے گی، اسے اچھی طرح ذہن نشین کر لیں، قارئین کے فائدے کے لیے مذکورہ بالا دلائل کا ذکر بھی کیا جائے گا۔ رفع الیدین قبل از رکوع و بعد از رکوع سیّدنا عبد اللہ بن زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: ((صَلَّیْتُ خَلْفَ اَبِیْ بَکْرٍ الصِّدِّیْقِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَکَانَ یَرْفَعُیَدَیْہِ اِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاۃَ وَاِذَا رَکَعَ وَاِذَا رَفَعَ رَأْسَہُ مِنَ الرُّکُوْعِ، وَقَالَ اَبُوْ بَکْرٍ: صَلَّیْتَ خَلْفَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَکَانَ یَرْفَعُیَدَیْہِ اِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاۃَ وَاِذَا رَکَعَ وَاِذَا رَفَعَ رَأْسَہٗمِنَالرُّکُوْعِ۔)) یعنی: میں نے (اپنے نانا) ابو بکر صدیق ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پیچھے نماز پڑھی، انھوں نے ابتدائے نماز میں اور رکوع کرتے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کیا، پھر سیّدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پیچھے نماز پڑھی، پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے نماز شروع کرتے وقت، رکوع کرتے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کیا۔ (سنن کبری بیہقی: ۲/ ۷۳) انتہائی اہم تنبیہ:… نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سب سے پرانے اور گہرے رفیق سیّدنا ابو بکر صدیق ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تھے، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مرض الموت کی حالت میں مسجد نبوی میں اپنی آخری نماز ادا کر رہے تھے، اس وقت ابو بکر صدیق آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی دائیں جانب آپ کی اقتدا میں کھڑے تھے۔ رفع الیدین کے بارے میں اگر ایسی عظیم ہستیاں شہادت دے دیں تو اسے قبول کر لیا جانا چاہیے۔ سیّدنا مالک بن حویرث ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: ہم (بنو لیث کے تیرہ) نوجوان لوگ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آئے اور بیس دن قیام کیا، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے محسوس کیا کہ اب ہم گھر جانا چاہتے ہیں تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں واپس جانے کی اجازت دی اور فرمایا: ((… … صَلُّوْا کَمَا رَاَیْتُمُوْنِیْ اُصَلِّیْ۔)) (اس طرح نماز پڑھنا، جس طرح مجھے پڑھتے ہوئے دیکھا)…۔ (ملاحظہ ہو: صحیح بخاری۶۲۸، ۶۳۱ مع الفتح) یہی مالک بن حویرث رفع الیدین عند الرکوع کی حدیث بھی بیان کرتے ہیں۔ اس بحث میں رفع الیدین سے مراد رکوع سے پہلے، رکوع کے بعد اور تیسری رکعت کے شروع میں دونوں ہاتھوں کو بلند کرنا ہے۔ اس ضمن میں مجھے سب سے زیادہ حیرانی حنفی مقلدین پر ہے،جو ایک طرف یہ نظریہ بیان کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ ائمہ اربعہ برحق ہیں، ان میں سے کسی ایک کی تقلید کی جا سکتی ہے، لیکن دوسری طرف رفع الیدین کا بھرپورردّ کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں، حالانکہ امام مالک، امام شافعی اور امام احمد تینوں رفع الیدین کرتے تھے۔ رفع الیدین کے اثبات پر دلالت کرنے والی صحیح ترین اور کثیر احادیث کا لحاظ کرتے ہوئے احناف کو زیادہ سے زیادہیہ کہنا چاہیے تھا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے رفع الیدین کرنا بھی ثابت ہے اور ہر مسلمان پر رفع الیدین کرنے کا اہتمام کرنا چاہیے۔ جیسا کہ معروف دیو بندی عالم محمد مظہر بقا (تلمیذ مفتی محمد شفیع فاضل دیو بند ایم اے، پی ایچ ڈی استاد جامعہ ام القرآن مکہ مکرمہ)نے لکھا، وہ فرماتے ہیں: رکوع میں جاتے اور اس سے اُٹھتے وقت رفع یدین چونکہ صحیح اور قوی احادیث سے ثابت ہے اس لیے کبھی کبھی رفع یدین بھی کر لیتا ہوں۔ حضرت مفتی محمد شفیع صاحبlنے ایک مرتبہ اپنی نجی مجلس میں حاضرین سے فرمایا تھا کبھی کبھی رفع یدین بھی کر لیا کرو کیونکہ اگر قیامت کے دن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دریافت فرما لیا کہ تم تک میرییہ سنت بھی تو صحیح طور پر پہنچی تھی تم نے اس پر کیوں عمل نہ کیا تو کوئی جواب نہ بن پڑے گا۔ (حیات بقا اور کچھ یادیں صفحہ ۱۹۰ (تحت عنوان) فقہی مسائل میں میرا طرزِ عمل، مطبوعہ: زوار اکیڈمی پبلی کیشنز، ناظم آباد کراچی) لیکن معاملہ اس کے برعکس دکھائی دیا اور انھوں نے ان تمام احادیث کو ردّ کرنا شروع کر دیا، جن کی روشنی میں امام مالک، امام شافعی اور امام احمد رفع الیدین کیا کرتے تھے۔ اس عظیم سنت کی نہ صرف تردید کی گئی بلکہ قبیح انداز میں اس کا مذاق اُڑانے سے بھی اجتناب نہ کیا گیا۔ اس قبیح اور توہین آمیز انداز کے الفاظ ناقابل بیان ہیں۔ (تفصیل کے لیے دیکھئے: تجلیات صفدر، صفحہ ۳۵۹، جلد ۷، مطبوعہ مکتبہ امدادیہ ملتان) اور اس سنت قائمہ سے جان چھڑانے کے لیے جو ظلم ڈھایا جاتا ہے وہ ملاحظہ ہو۔ دیو بندی شیخ الہند محمود الحسن صاحب غالی مقلدین کی حالت زار بیان کرتے ہوئے فرماتے: رفع یدین میں تو باوجود احادیث صریحہ کے امام کی آڑ پکڑیں اور کہیں امام کا مذہب نہیں اور خوب جمیں اور حنفیت کا دعویٰ کریں اور اگر کوئی غیر مقلد رفع یدین کرے تو اخراج من المسجد کا حکم دے دیں۔ (الورد الشذی علی جامع الترمذی، صفحہ: ۵۲) اس مسئلہ میں ہمارا نظریہیہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر نماز فرض کی اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس نماز کا طریقہ بیان کیا اور صَلُّوْا کَمَا رَأَیْتُمُوْنِیْ اُصَلِّیْ فرما کر نماز کے تمام امور میں اپنی اقتدا کرنے کا حکم دیا۔ جیسےیہ نماز روزِ فرضیت سے تکبیر تحریمہ، اس کے لیے کیے جانے والے رفع الیدین، قراء ت، قیام، رکوع وسجود وغیرہ پر مشتمل تھی، اسی طرح اس میں رکوع سے پہلے والا اور رکوع سے بعد والا رفع الیدین بھی پایا جاتا تھا۔ ہم بعض دلائل کا ذکر کریں گے: (۱)… سیّدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: ((رَاَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اِذَا قَامَ فِیْ الصَّلَاۃِ رَفَعَ یَدَیْہِ حَتّٰی تَکُوْنَ حَذْوَ مَنْکِبَیْہِ، وَکَانَ یَفْعَلُ ذَالِکَ حِیْنَیُکَبِّرُ لِلرُّکُوْعِ وَ یَفْعَلُ ذَالِکَ اِذَا رَفَعَ رَأْسَہٗمِنَالرُّکُوْعِ۔)) یعنی: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیکھا، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو (تکبیر تحریمہ کے وقت) ہاتھوں کو کندھوں تک بلند کرتے، اسی طرح جب رکوع کے لیے اَللّٰہُ اَکْبَر کہتے اور رکوع سے سر اٹھاتے تو (رفع الیدین کرتے تھے) اور سجدوں میں اس طرح نہیںکرتے تھے۔ (صحیح بخاری: ۷۳۵، ۷۳۶، صحیح مسلم: ۳۹۰، مسند احمد: ۱/ ۱۴۷، ۴۵۲۶، ابوداود: ۷۲۱، ترمذی: ۲۵۵، نسائی: ۱۰۲۵، ابن ماجہ: ۸۵۸، مؤطا امام مالک: ۱/ ۷۵، مؤطا امام محمد: ۱۰۰) امام علی بن مدینی نے کہا: یہ حدیث مخلوق پر حجت ہے، ہر وہ انسان جو اس کو سنے، اس پر لازم ہے کہ وہ اس پر عمل کرے (اور رفع الیدین کرے)، کیونکہ اس کی سند پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ سیّدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ خود بھی اسی حدیث پر عمل کرتے ہوئے رفع الیدین کے ساتھ نماز پڑھتے تھے۔ (۲) ابوقلابہ کہتے ہیں: جب سیّدنامالک بن حویرث ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے نماز شروع کی تو رفع الیدین کیا، اسی طرح جب رکوع کیا اور رکوع سے سر اٹھایا تو پھر رفع الیدین کیا اور یہ بیان کیا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسی طرح نماز پڑھی۔ (صحیح بخاری: ۷۳۷، صحیح مسلم: ۳۹۱، مسند احمد: ۱۵۱۷۲، نسائی: ۸۸۰، ابن ماجہ: ۸۵۹) اہم تنبیہ:… سیّدنا مالک بن حویرث ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بنو لیث کے وفد کے ساتھ اس وقت نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس تشریف لائے، جب آپ غزوۂ تبوک کی تیاری میں مصروف تھے۔ (فتح الباری: ۲/ ۱۴۱) اور غزوۂ تبوک ۹ ھ کے ساتویں مہینے رجب میں ہوا، اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی زندگی کے آخری سالوں میں رفع الیدین جاری رہا۔ (خزائن السنن صفحہ ۳۶۴، مطبوعہ: مکتبہ صفدریہ گوجرانوالہ) (۳)… سیّدنا وائل بن حجر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میںنے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیکھا کہ جب آپ نماز میں داخل ہوئے تو اَللّٰہُ اَکْبَر کہا اور (کانوں کے برابر تک) رفع الیدین کیا، پھر اپنا کپڑا لپیٹ لیا اور اپنا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھ لیا، پھر جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے رکوع کرنا چاہا تو ہاتھوں کو کپڑے سے نکالا اور اسی طرح رفع الیدین کیا، پھر جب سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہ کہا تو رفع الیدین کیا۔ (صحیح مسلم: ۴۰۱، مسند احمد: ۱۸۳۹۸، ابوداود: ۷۲۳، ترمذی: ۲۶۸، نسائی: ۸۷۹، ابن ماجہ: ۸۶۷) اہم بات: اس حدیث کی سند کے ایک راوی محمد بن جحادہ کہتے ہیں: جب میں نے یہ حدیث امام حسن بصری کو بیان کی تو انھوںنے کہا: ھی صلاۃ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فعلہ من فعلہ و ترکہ من ترکہ۔ یعنی: یہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی نماز ہے، جس نے اسے اختیار کیا، سو اختیار کیا اور جس نے اسے چھوڑ دیا، سو چھوڑ دیا۔ (ابوداود: ۷۲۳) اہم تنبیہ:… سیّدنا وائل بن حجر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ۹ ھ میں مسلمان ہوئے، یہ اگلے سال سردی کے موسم میں دوبارہ تشریف لائے، یہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی حیات ِ مبارکہ کا آخری موسم سردا تھا۔ (دیکھئے: عمدۃ القاری: ۵/ ۲۷۴، صحیح ابن حبان: ۳/ ۱۶۹) انھوں نے دونوں موقعوں پر رفع الیدین کی حدیث بیان کی۔ رفع الیدین کے منسوخ ہونے کا بے بنیاد دعوی کرنے والے متنبہ رہیں۔ اس حدیث ِ مبارکہ سے ثابت ہوا کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے ۱۰ ھ میں رفع الیدین کرنے کی دلیل موجود ہے اور گیارہوین سن ہجری کے تیسرے مہینے میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم انتقال فرما گئے۔ (۴)… سیّدنا ابو حمید ساعدی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، ابو قتادہ سمیت دس صحابہ کرام میںموجود تھے، انھوں نے کہا: میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی نماز کے بارے میں تم سب سے زیادہ علم رکھنے والا ہوں۔ دوسرے صحابہ نے کہا: اللہ کی قسم! نہ تو ہم سے پہلے مسلمان ہوا اور نہ ہم سے زیادہ صحبت اختیار کی (تو کیسے زیادہ علم رکھتا ہے)، چلو پیش کرو۔ سیّدنا ابو حمید ساعدی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو اَللّٰہُ اَکْبَر کہتے اور اپنے دونوں ہاتھ کندھوں تک اٹھاتے اور ہر ہڈی اپنی جگہ پر ٹھہر جاتی، پھر قراء ت کرتے، پھر اپنے دونوں ہاتھ کندھوں تک اٹھاتے اور رکوع کرتے، رکوع میں اپنی ہتھیلیاں گھٹنوں پر رکھتے اور دورانِ رکوع سر اونچا رکھتے نہ نیچا، پھر سر اٹھاتے تو سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہ کہتے اور کندھوں تک رفع الیدین کرتے۔ صحابہ نے کہا: تو نے سچ کہا، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اسی طرح نماز پڑھتے تھے۔ (ابوداود: ۷۳۰، ترمذی: ۲۶۰، نسائی: ۱۱۸۱، ابن ماجہ: ۸۶۲، احمد: ۲۳۰۸۸) (۵)… سیّدنا علی بن ابی طالب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب فرضی نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو اَللّٰہُ اَکْبَر کہتے اور کندھوں کے برابر رفع الیدین کرتے، اور جب تلاوت پوری کرنے کے بعد رکوع کرتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو پھر اسی طرح (رفع الیدین) کرتے تھے، اور نماز میں بیٹھنے کی حالت میںایسا نہ کرتے، اور جب دو رکعتوں کے بعد (تیسری رکعت کے لیے) کھڑے ہوتے تو پھررفع الیدین کرتے تھے۔ (ابوداود: ۷۴۴، ترمذی: ۳۴۲۳، ابن ماجہ: ۸۶۴) (۶)… سیّدنا ابو موسی اشعری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: کیا میں تم لوگوں کو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی نماز پڑھ کر دکھاؤں، پھر انھوں نے اَللّٰہُ اَکْبَر کہا اور رفع الیدین کیا، پھر (رکوع کے لیے) اَللّٰہُ اَکْبَر کہا، پھر جب رکوع سے سر اٹھاتے وقت سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہ کہا تو رفع الیدین کیا۔ (سنن دار قطنی: ۱/ ۲۹۲) (۷)… امام ابو اسماعیل محمد بن اسماعیل سلمیk کہتے ہیں: میں ابو نعمان محمد بن فضل کی اقتدا میں نماز پڑھی، انھوں نے نماز شروع کرتے وقت، رکوع جاتے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کیا، جب میں نے اس کے بارے میں ان سے پوچھا تو انھوں نے کہا: میں نے امام حماد بن زید کی اقتدا میں نماز پڑھی، انھوں نے نماز شروع کرتے وقت، رکوع جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کیا، جب میں نے ان سے اس بارے میں سوال کیا تو انھوں نے کہا: میں نے امام ایوب سختیانی کی اقتدا میں نماز پڑھی، وہ نماز شروع کرتے وقت ، رکوع کو جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کرتے تھے۔ جب میں نے ان سے پوچھا تو انھوں نے کہا: میں نے امام عطا بن ابی رباح کی اقتدا میں نماز پڑھی، وہ نماز شروع کرتے وقت، رکوع جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کرتے تھے۔ جب میں نے ان سے اس بارے میں پوچھاتو امام عطا نے کہا: میں نے صحابی ٔ رسول سیّدنا عبد اللہ بن زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی اقتدا میںنماز پڑھی، وہ نماز شروع کرتے وقت، رکوع جاتے اور رکوع سے سراٹھاتے وقت رفع الیدین کرتے تھے، جب امام عطاء نے سیّدنا عبد اللہ بن زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے رفع الیدین کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے کہا: صَلَّیْتُ خَلْفَ اَبِیْ بَکْرٍ الصِّدِّیْقِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَکَانَ یَرْفَعُیَدَیْہِ اِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاۃَ وَاِذَا رَکَعَ وَاِذَا رَفَعَ رَأْسَہُ مِنَ الرُّکُوْعِ، وَقَالَ اَبُوْ بَکْرٍ: صَلَّیْتَ خَلْفَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَکَانَ یَرْفَعُیَدَیْہِ اِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاۃَ وَاِذَا رَکَعَ وَاِذَا رَفَعَ رَأْسَہٗمِنَالرُّکُوْعِ۔ یعنی: میں نے (اپنے نانا) ابو بکر صدیق ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پیچھے نماز پڑھی، انھوں نے ابتدائے نماز میں اور رکوع کرتے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کیا، پھر سیّدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پیچھے نماز پڑھی، پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے نماز شروع کرتے وقت، رکوع کرتے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کیا۔ (سنن کبری بیہقی: ۲/ ۷۳) انتہائی اہم تنبیہ:… نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سب سے پرانے اور گہرے رفیق سیّدنا ابو بکر صدیق ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تھے، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مرض الموت کی حالت میں مسجد نبوی میں اپنی آخری نماز ادا کر رہے تھے، اس وقت ابو بکر صدیق آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی دائیں جانب آپ کی اقتدا میں کھڑے تھے۔ رفع الیدین کے بارے میں اگر ایسی عظیم ہستیاں شہادت دے دیں تو اسے قبول کر لیا جانا چاہیے۔ (۸)… عبد اللہ بن قاسم کہتے ہیں: لوگ مسجد نبوی میں نماز پڑھ رہے تھے، اچانک سیّدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ وہاں تشریف لائے اور کہا: لوگو! چہرے میری طرف کرو، میں تمہیں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی نماز پڑھ کر دکھاتا ہوں، جو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پڑھتے تھے اور جس کا حکم دیتے تھے۔ پھر آپ قبلہ کی طرف منہ کر کے کھڑے ہو گئے اور اپنے کندھوں تک رفع الیدین کیا اور اَللّٰہُ اَکْبَر کہا، پھر اپنی نظر جھکا لی، پھر کندھوں کے برابر رفع الیدین کیا اور اَللّٰہُ اَکْبَر کہہ کر رکوع کیا اور جب رکوع سے کھڑے ہوئے تو اسی طرح (رفع الیدین) کیا۔ (نصب الرایۃ: ۱/ ۴۱۶، مسند الفاروق لابن کثیر: ۱/ ۱۶۵، شرح سنن الترمذی لابن سیّد الناس ۲؍۲۱۷ واللفظ لہ) یہ ہے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی نماز کے بارے میں سیّدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی شہادت۔ (۹)… ابو الزبیر کہتے ہیں: ((اِنَّ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللّٰہِ کَانَ اِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاۃَ رَفَعَ یَدَیْہِ، وَاِذَا رَکَعَ، وَاِذَا رَفَعَ رَأْسَہٗمِنَالرُّکُوْعِفَعَلَمِثْلَذَالِکَ،وَیَقُوْلُ: رَأیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَعَلَ مِثْلَ ذَالِکَ۔)) یعنی: سیّدنا جابر بن عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ جب نماز شروع کرتے تو رفع الیدین کرتے، جب رکوع کرتے اور رکوع سے سر اٹھاتے تو اسی طرح رفع الیدین کرتے اور کہتے تھے کہ میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اسی طرح کرتے دیکھا ہے۔ (ابن ماجہ: ۸۶۸) جب سعید بن جبیر تابعی سے رفع الیدین کے بارے میں پوچھا گیا توانھوں نے کہا: یہ نماز کی زینت ہے اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے صحابہ کرام شروع نماز میں، رکوع کے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کرتے تھے۔ (سنن کبری بیہقی: ۲/ ۷۵) امام بخاری نے کہا: ولم یثبت عن احد من اصحاب النبی ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم انہ لا یرفعیدیہ۔ یعنی: کسی ایک صحابی سے بھی رفع الیدین نہ کرنا ثابت نہیں ہے۔ (جزء رفع الیدین: ۴۰، ۱۷۶) عبد اللہ بن وہب کہتے ہیں: رَاَیْتُ مَالِکَ بْنَ اَنَسٍ یَرْفَعُیَدَیْہِ اِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاۃَ وَاِذَا رَکَعَ وَاِذَا رَفَعَ مِنَ الرُّکُوْعِ۔ یعنی: میں نے امام مالک کو دیکھا کہ وہ ابتدائے نماز میں اور رکوع کرتے وقت اور رکوع سے اٹھتے وقت رفع الیدین کرتے تھے۔ (تاریخ دمشق لابن عساکر: ۵۵/ ۱۳۴) محمد بن عبد اللہ نے کہا: یہی امام مالک کا قول ہے اور وہ اسی پر فوت ہوئے اور یہی سنت ہے اور میں بھی اسی کا عامل ہوں۔ (تاریخ دمشق: ۵۵/ ۱۳۴) امام ابوداود کہتے ہیں: میں نے امام احمد کو دیکھا ہے وہ رکوع سے پہلے اور بعد میں ابتدائے نماز والا رفع الیدین کرتے تھے اور کانوں تک ہاتھ اٹھاتے تھے اور بعض اوقات شروع نماز والے رفع الیدین سے ذرا کم بلند کرتے تھے۔ (مسائل احمد روایۃ ابی داود: ص ۳۳) محمد بن نصر مروزی نے کہا: (رفع الیدین قبل از رکوع اور بعد از رکوع پر) اہل کوفہ کے علاوہ علمائے امصار نے اجماع کیا ہے۔ (فتح الباری: ۲/ ۲۵۷) مولانا عبد الحئی حنفی نے کہا: نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے رفع الیدین کرنے کا بہت کافی اور نہایت عمدہ ثبوت ہے۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ رفع الیدین منسوخ ہے، ان کا قول بے دلیل ہے۔ (التعلیق الممجد: ص ۹۱) شاہ ولی اللہ دہلوی نے کہا: جب آدمی رکوع کرنے کا ارادہ کرے تو رفع الیدین کرے اور جب رکوع سے سر اٹھائے تو رفع الیدین کرے۔ میں رفع الیدین کرنے والوں کو نہ کرنے والوں سے اچھا سمجھتا ہوں، کیونکہ رفع الیدین کی حدیثیں بہت زیادہ اور بہت صحیح ہیں۔ (حجۃ اللہ البالغۃ: ۲/ ۱۰) خلاصہ کلام: … درج ذیل صحابہ کرام نے رفع الیدین عند الرکوع کی روایات بیان کی ہیں: سیّدنا ابو بکر صدیق، سیّدنا عمر بن خطاب، سیّدنا علی بن ابی طالب، سیّدنا عبد اللہ بن عمر، سیّدنا مالک بن حویرث، سیّدنا وائل بن حجر، سیّدنا ابو حمید ساعدی، سیّدنا ابو قتادہ، سیّدنا سہل بن سعد ساعدی، سیّدنا ابو اسید ساعدی، سیّدنا محمد بن مسلمہ، سیّدنا ابو موسی اشعری، سیّدنا عبد اللہ بن زبیر، سیّدنا جابر بن عبد اللہ، سیّدنا ابو ہریرہe۔ اس کثرت کی وجہ سے امام ابن جوزی، حافظ ابن حجر، امام ابن حزم، امام سیوطی، امام سخاوی اور امام ابن تیمیہ وغیرہ نے رفع الیدین کی احادیث کو متواتر قرار دیا ہے۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی وفات کے بعد درج ذیل صحابہ سے رفع الیدین کرنا ثابت ہے اور کسی کا انکار ثابت نہیں ہے۔ سیّدنا ابو بکر صدیق، سیّدنا عمر فاروق، سیّدنا عبد اللہ بن عمر، سیّدنا مالک بن حویرث، سیّدنا ابو موسی اشعری، سیّدنا عبد اللہ بن زبیر، سیّدنا عبد اللہ بن عباس، سیّدنا انس بن مالک، سیّدنا جابر، سیّدنا ابو ہریرہ، سیّدنا ابو حمید ساعدیe۔ جن بڑے بڑے ائمہ کرام سے رفع الیدین کرنا ثابت ہے، ان میں سے چند ایک کے نام یہ ہیں: امام مالک، امام شافعی، امام احمد، امام علی بن مدینی، اما اسحاق بن راہویہ، امام اوزاعی، امام عبد اللہ بن مبارک، امام عبد الرحمن بن مہدی، امام یحییٰ بن معین، امام بخاری، وغیرہ۔ رحمہم اللہ تعالی تنبیہ:… جن روایات میں کانوں تک رفع الیدین کرنے کا ذکر ہے، ان روایات کے سیاق و سباق اور دوسری احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ کانوں کو چھونا نہیں، بلکہ اونچائی میں کانوں کے برابر بلند کرنا مراد ہے۔ جن روایات میں رکوع سے پہلے یا بعد میں عدم رفع الیدین کا ذکر ہے، بعض محل نزاع سے خارج اور بعض ضعیف اور ناقابل حجت ہیں۔ ان روایات کی تفصیل کے لیے حافظ ابو طاہر زبیر علی زئی صاحب کی کتاب نور العینین فی رفع الیدین کا مطالعہ مفید رہے گا۔ اگر کوئی عدل و انصاف کا لحاظ رکھے تو اسے رفع الیدین قبل از رکوع اور بعد از رکوع پر دلالت کرنے والی احادیث کو تسلیم کرنا پڑے گا۔