Blog
Books
Search Hadith

اسی باب کی ایک فصل اس شخص کی دلیل کے متعلق جس کے خیال کے مطابق تکبیرۂ تحریمہ کے علاوہ رفع الیدین نہیں ہے

۔ (۱۵۴۶) عَنْ غَضِیْفِ بْنِ الْحَاِرثِ قَالَ: مَانَسِیْتُ مِنَ الْأَشْیَائِ، مَانَسِیْتُ (وَفِیْ رِوَایَۃٍ لَمْ أَنْسَ) أَنِّیْ رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَاضِعًا یَمِیْنَہُ عَلٰی شِمَالِہِ فِی الصَّلَاۃِ۔ (مسند احمد: ۱۷۰۹۲)

سیّدنا غضیف بن حارث ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں:(جو کچھ میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سنا یا دیکھا، اس میں سے) کوئی چیز بھی میںنہیں بھولا، میں یہ بات بھی نہیں بھولا کہ میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیکھا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے نماز میں دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھا ہوا تھا۔
Haidth Number: 1546
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۵۴۵) تخریـج:… أخرجہ البخاری: ۷۴۰، وفی الباب عن غیر واحد من الصحابۃ (انظر: ۲۲۸۴۹)۔

Wazahat

فوائد:… درج بالا احادیث ِ صحیحہ سے یہ مسئلہ تو واضح ہو جاتا ہے کہ نماز میںہاتھ باندھے جائیں اور دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھا جائے۔ اس امر میں اختلاف ہے کہ ہاتھوں کو سینے پر باندھا جائے یا سینے اور ناف کے درمیان یا ناف سے نیچے۔ ہم درج ذیل بحث میں مندرج دلائل کی روشنی میں سینے پر ہاتھ باندھنے کو راجح سمجھتے ہیں، آخر میں دوسرے دلائل کی حقیقت بھی واضح کی گئی ہے: نماز میں سینے پر ہاتھ باندھنا ارشادِ باری تعالیٰ ہے: {وَأَقِیْمُوْا الصَّلٰوۃَ وَآتُوْا الزَّکٰوۃَ وَاَطِیْعُوْا الرَّسُوْلَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ} (النور: ۵۶) یعنی: نماز قائم کرو، زکوۃ ادا کرو اور رسول اللہ ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) کی فرمانبرداری کرو، (اگر تم ایسا کرو گے تو) یقینا تم پر رحم کیا جائے گا۔ یہ آیت کریمہ اس بات پر دلیل ہے کہ نماز، جو دینِ اسلام کا بنیادی اور انتہائی اہم رکن ہے، کی ادائیگی میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی پیروی ضروری ہے، بصورتِ دیگر وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبول نہیں ہو گی، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے نماز میں اپنے افعال و اقوال کی پیروی کا حکم دیا ہے، جیسا کہ سیّدنا مالک بن حویرث ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ((صَلُّوْا کَمَا رَأَیْتُمُوْنِیْ أُصَلِّیْ۔)) یعنی: تم نماز ایسے پڑھو، جیسا کہ تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔ (صحیح بخاری:۶۳۱) زیر بحث مسئلہ پر پاکستان کے ایک محقق عالم دینغلام مصطفی ظہیر امن پوری نے ایک تحقیقی جائزہ پیش کیا، ہم قارئین کے فائدے کے لیے انہی کا انداز اپناتے ہوئے ان کی تحریر پیش کرتے ہیں: اس حکمِ نبوی کے بعد ہمیںبطور مسلمان یہ دیکھنا ہے کہ آیا ہماری نمازیں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے مبارک طریقہ سے کتنی موافقت رکھتی ہے؟اور کہاں کہاںہم آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے طریقۂ نماز کی مخالفت کرتے ہیں؟ بعض لوگ نماز میں زیر ناف ہاتھ باندھنا سنت سمجھتے ہیں، حالانکہ شرعاً اس پر کوئی دلیل نہیں ہے، نبوی طریقہیہ ہے کہ نماز میں ہاتھ سینے پر باندھے جائیں، دلائل ملاحظہ فرمائیں:دلیل نمبر (۱):… سیّدنا سہل بن سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: کَانَ النَّاسُ یُؤْمَرُوْنَ أَنْ یَضَعَ الرَّجُلُ یَدَہُ الْیُمْنٰی عَلٰی ذِرَاعِہِ الْیُسْرٰی فِیْ الصَّلَاۃِ وَقَالَ اَبُوْ حَازِمٍ: لَا أَعْلَمُہٗاِلَّایَنْمِیْ ذَالِکَ اِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ۔ یعنی: لوگوں کو حکم دیاجاتا تھا کہ وہ نماز میں اپنا دایاں ہاتھ بائیں بازو پر رکھیں۔ (صحیح البخاری: ۱/۱۰۲، حدیث: ۷۴۰، مؤطا امام مالک: ۱/۱۵۹، حدیث: ۳۳۷، مسند احمد: ۵/۳۳۶)لغتِ عرب کی مشہور و مستند کتاب لسان العرب لابن منظور( ۸/۹۳) میں لکھا ہے کہ: اَلذِّرَاعُ: مَا بَیْنَ طَرْفِ الْمِرْفَقِ اِلٰی طَرْفِ الْاِصْبَعِ الْوُسْطٰی۔ یعنی: ذِرَاع کہنی کے کنارے سے لے کر درمیانی انگلی کے سرے تک ہوتا ہے۔ جناب وحید الزمان قاسمی کیرانوی دیوبندی صاحب لکھتے ہیں: انسان کا ذراع کہنی کے سرے سے درمیانی انگلی کے سرے تک ہوتا ہے۔ (القاموس الوحید:صـ ۵۶۸) اگر اس حدیث پر عمل کیا جائے تو زیر ناف ہاتھ آہی نہیں سکتے۔دلیل نمبر (۲):… سیّدنا وائل بن حجر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے،وہ کہتے ہیں: وَضَعَ یَدَہُ الْیُمْنٰی عَلٰی ظَہْرِ کَفِّہِ الْیُسْرٰی وَالرُّسْغِ وَالسَّاعِدِ۔ یعنی: نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنا دایاں ہاتھ مبارک بائیں ہتھیلی کی پشت، کلائی اور ساعد (کلائی سے لے کر کہنی تک) پر رکھا۔ (سنن ابی داود: ۱/۱۰۵، حدیث:۷۲۶، سنن النسائی: ۲/۱۲۶، حدیث: ۸۹۰، مسند احمد: ۴/۳۱۸ ) اس حدیث کو امام ابن خزیمہ(۴۸۰)، امام ابن حبان(۴۸۵: موارد) نے صحیح کہا ہے، حافظ نووی (خلاصۃ الأحکام: ۱/۳۵۶) اور نیموی حنفی (آثار السنن: ۳۲۳) نے اس کی سند کو صحیح کہا ہے۔ یہ حدیث پہلی حدیث کی مؤید ہے، جب دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ کی کہنی پر رکھا جائے، تو ہاتھ خود بخود سینے پر آجاتے ہیں۔دلیل نمبر (۳):… سیّدنا ہلب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: رَأَیتُ النِّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَنْصَرِفُ عَنْ یَمِیْنِہٖ وَ عَنْ یَسَارِہٖ، وَرَأَیْتُہٗیَضَعُ ھٰذِہٖعَلیٰ صدْرِہٖ،وَوَصَفَیَحْیٰی الْیُمْنٰی عَلَی الْیُسْرٰی فَوْقَ الْمَفْصِلِ۔ یعنی: میں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیکھا کہ (بعد از سلام) آپ اپنی دائیں اور بائیں دونوں جانب پھرتے تھے، میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیکھا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہاتھ اپنے سینے پر رکھتے تھے، راویٔ حدیثیحییٰ (بن سعید القطان) نے یہ طریقہ بیان کیا کہ اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ کے جوڑ کے اوپر رکھا۔ (مسند احمد: ۵/۲۲۶، التحقیق لابن الجوزی: ۱/۳۳۸، حدیث: ۴۳۴، فتح الباری: ۲/۲۲۴، جامع المسانید والسنن للحافظ ابن کثیر: ۱۲/۲۹۶، ۲۹۷، حدیث: ۹۶۹۳) نیموی حنفی نے اس کی سند کو حسن قرار دیا ہے۔ (آثار السنن: ۳۲۶) یہ حدیث مسند امام احمد کے تمام نسخوں میں موجود ہے، ابن الجوزی وغیرہ نے وہاں سے نقل کی ہے۔ راویٔ حدیث سماک بن حرب حسن الحدیث ہے، اس نے اختلاط سے پہلے یہ حدیث بیان کی ہے، امام یعقوب بن سفیان الفارسی نے۔ سماک کے بارے میں کہا: وَمَنْ سَمِعَ مِنْہُ قَدِیْمًامِثْلُ شُعْبَۃَ وَسُفْیَانَ فَحَدِیْثُھُمْ عَنْہُ صَحِیْحٌ مُسْتَقِیْمٌ۔ یعنی: شعبہ اور سفیان وغیرہ کی طرح جن راویوں نے سِماک سے قدیم (یعنی اختلاط سے پہلے) حدیث سنی، ان کی حدیث سماک سے صحیح اور مستقیم ہے۔ یہ بات امام دارقطنی نے بھی کہی ہے۔ (سؤالات السلمی للدارقطنی: ۱۵۸) یہحدیث امام سفیان ثوری نے ان سے سماع کی تصریح کے ساتھ روایت کی ہے۔ سماک بن حرب صحیح مسلم کے راوی ہیں، جمہور نے ان کی توثیق کر رکھی ہے،(۱)… امام یحییٰ بن معین کہتے ہیں کہ یہ ثقہ ہے۔ (الجرح والتعدیل: ۴/۲۷۹) (۲)… امام ابو حاتم الرازی نے صدوق ثقۃ کہا ہے۔ (الجرح واالتعدیل: ۴/۲۸۰)(۳)… امام احمد بن حنبل کہتے ہیں: سماک اصلح حدیثا من عبد الملک بن عمیر یعنی: سماک بن حرب حدیث میں عبد الملک بن عمیر سے زیادہ درست ہے۔ (الجرح والتعدیل: ۴/۲۷۹) (۴)… امام سفیان ثوری فرماتے ہیں: ما یسقط لسماک بن حرب حدیث یعنی: سماک بن حرب کی کوئی حدیث ضعیف نہیں ہے۔ (تاریخ بغداد: ۹/۲۱۵) (۵)… امام ابن عدی کہتے ہیں: و احادیثہ حسان عن من روی عنہ، وھو صدوق لابأس بہ یعنی: سماک جس سے بھی روایت کرے، اس کی احادیث حسن ہوتی ہیں، وہ صدوق ہے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ (الکامل: ۳/۱۳۰۰) (۶)… امام ابن شاہین نے ان کو الثقات: صـ ۵۰۵ میں ذکر کیا۔(۷)… امام ابن حبان نے ان کو الثقات: ۴/۳۳۹ میں ذکر کیا ہے اور یخطیٔ کثیرا کہا ہے، تو یہ جرح مردود ہے، کیونکہ خود امام ابن حبان نے اپنی صحیح: ۱/۱۴۳ میں سماک کی احادیث کو صحیح کہا ہے۔تنبیہ: … حافظ ذہبی لکھتے ہیں: وقال ابن حبان: کان (عمر بن شبیب) صدوقا، لکنہ یخطیء کثیرا علی قلۃ روایتہ، قلت:ھذافیہ تناقض، فالصدوق لایکثر خطؤہ وکثیر الخطأ مع القلۃ ھو المتروک۔ یعنی: امام ابن حبان کہتے ہیں: کہ راوی (عمر بن شبیب) صدوق تھا، لیکن روایات کی قلت کے باوجود کثرت سے خطأ کھاتا تھا، میں (ذہبی) کہتا ہوں: اس میں تناقض ہے، صدوق کثرت سے خطأ نہیں کھاتا، روایات کی قلت کے باجود کثیر الخطأ متروک ہوتا ہے۔ (سیر أعلام النبلائ: ۹/۴۲۹)(۸)… امام ابن خزیمہ (۱/۸)۔ (۹)… امام حاکم۔ (۱۰)… امام ابن الجارود (۲۵، ۸۲۸)۔ (۱۱)… امام الضیاء المقدسی (المختارۃ) ۔(۱۲)… امام ابن عبد البر (الاستیعاب: ۳/۶۱۵) نے سماک کی حدیث کو صحیح کہا ہے۔(۱۳) … حافظ ذہبی لکھتے ہیں: الحافظ، الامام الکبیر (سیر أعلام النبلائ: ۵/۲۴۵) نیز لکھتے ہیں: صدوق جلیل (المغنی فی الضعفائ: ۲۶۴۹)(۱۴)… حافظ ابن کثیر نے ان کی ایک روایت کی سند کو جید کہاہے۔ (تفسیر ابن کثیر: سورۂ طہ: ۳)(۱۵)… حافظ ہیثمی ان کی ایک روایت کے بارے میں فرماتے ہیں: ورجالہ رجال الصحیح۔ (مجمع الزوائد: ۴/۱۸۲)(۱۶)… امام بخاری نے ان سے استشہاداً روایت لی ہے۔(۱۷)… امام شعبہ نے بھی ان سے روایت لی ہے، وہ غالباً ثقہ سے روایت لیتے ہیں۔(۱۸)… حافظ ابن حجر نے ان کی ایک حدیث کی سند کو صحیح کہا ہے۔ (تغلیق التعلیق لابن حجر: ۳/۲۶۶)(۱۹)… ابن ترکمانی حنفی نے سماک بن حرب کی ایک حدیث کو صحیح علی شرط مسلم کہا ہے۔ (الجوہر النقی: ۶/۳۳) سماک بن حرب پر کی گئی جروح اور ان کا جواب ملاحظہ فرمائیں: (۱)… امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں: مضطرب الحدیث۔ (الجرح والتعدیل: ۴/۲۷۹) اس قول کی سند میں محمد بن حمویہ بن الحسن کی توثیق نہیں مل سکی۔(۲)… امام یحییٰ بن معین کہتے ہیں: وکان شعبۃیضعفہ یعنی: امام شعبہ اسے ضعیف کہتے تھے۔ (تاریخ بغداد: ۹/۲۱۵) یہ قول منقطع ہے، کیونکہ امام یحییٰ بن معین کی امام شعبہ سے ملاقات نہیں ہے۔ یحییٰ بن سعید کہتے ہیں: کان شعبۃینکر حدیث سماک بن حرب عن مصعب بن سعد۔ یعنی: امام شعبہ مصعب سے سماک کی حدیث کو منکر سمجھتے تھے۔ (تقدمۃ الجرح والتعدیل: ۱۵۷) یادرہے کہ اس جرح کا تعلق مخصوص راوی سے ہے۔(۳)… امام محمد بن عبد اللہ بن عمار الموصلی کہتے ہیں: یقولون أِنہ کان یغلط ویختلفون فی حدیثہ یعنی: وہ کہتے ہیں کہ وہ غلطیاں کرتا تھا اور وہ اس کی حدیث میں اختلاف کرتے تھے۔ (تاریخ بغداد: ۹/۲۱۶) چونکہ جمہور نے سماک کی توثیق کر رکھی ہے، یقولون نامعلوم لوگ ہیں، لہٰذا جرح مردود ہے۔(۴)… امام عجلی کہتے ہیں: وکان سفیان الثورییضعفہ بعض الضعف یعنی: امام سفیان ثوری اس میں کچھ ضعف بیان کرتے تھے۔ (تاریخ الثقات: ۶۲۱، تاریخ بغداد: ۹/۲۱۶) یہ قول منقطع ہے، کیونکہ امام سفیان ثوری۱۶۱ ھ میں فوت ہوئے اورامام عجلی۱۸۲ ھ میں پیدا ہوئے۔(۵)… ابن خراش کہتے ہیں: فی حدیثہ لین یعنی: اس کی حدیث میں لین ہے۔ (تاریخ بغداد: ۹/۲۱۶) ابن خراش خود ضعیف ہے اور اس قول کے راوی محمد بن داؤد کی توثیق نہیں مل سکی۔(۶)… امام عبد اللہ بن مبارک کہتے ہیں: سماک ضعیف فی الحدیث یعنی: سماک بن حرب حدیث میں ضعیف ہے۔ (تہذیب التہذیب: ۴/۲۰۴) یہ قول بلاسند ہونے کی وجہ سے مردود ہے، ثابت ہونے کی صور ت میں اختلاط کے بعد کی احادیث پر محمول ہے۔(۷)… جریر بن عبد الحمید نے ان کو کھڑے ہو کر پیشاب کرتے دیکھا تو ان کی روایت کو ترک کر دیا۔ (الکامل لابن عدی: ۳/۱۲۹۹) یہ کوئی سببِ جرح نہیں ہے، کیونکہ بعض صحابہ کرام e سے بھی ایسا کرنا ثابت ہے۔الحاصل:… سماک بن حرب حسن الحدیث ہیں، لیکن مختلط ہیں،ان کی اختلاط سے پہلے کی روایات صحیح ہیں، ان پر کی گئی جروح کو حالتِ اختلاط پر محمول کیا جائے گا، لہٰذا آپ بلاتردد حجت ہیں۔جمہور نے اس روایت کے دوسرے راوی قبیصہ بن ہلب کی توثیق کر رکھی ہے، امام عجلی نے اسے کوفی تابعی ثقہ کہا ہے (ثقات العجلی: ۱۳۷۹)، امام ابن حبان نے اس کو الثقات: ۵/۳۱۹ میں ذکر کیا ہے، امام ترمذی (۲۵۲) اور حافظ بغوی (۳/۳۱)نے ان کی حدیث کو حسن کہا ہے، امام علی بن مدینی اور امام نسائی کا اسے مجہول کہنا باسند صحیح ثابت نہیں ہے۔اعتراض:… نیموی حنفی نے عَلٰی صَدْرِہٖ کی زیادتی کو غیر محفوظ کہا ہے۔جواب:… عَلٰی صَدْرِہٖ کےالفاظامامیحییٰ بن سعید قطان، جو ثقہ حافظ ہیں، نے سفیان ثوری سے روایت کئے ہیں، اگر سفیان کے دوسرے شاگردوں نے یہ الفاظ ذکر نہیں کئے، تو اس سے کوئی نقصان و حرج نہیں ہے، کیونکہ ثقہ کی زیادتی مقبول ہوتی ہے، جیسا کہ امام بخاری فرماتے ہیں: والزیادۃ مقبولۃ یعنی: (ثقہ کی) زیادتی ہر صورت قبول ہوتی ہے۔ (صحیح البخاری: کتاب الزکاۃ؛ باب العشر فیمایسقی من ماء السماء :۱/۲۰۱، تحت حدیث: ۱۴۸۳) امام دار قطنی کہتے ہیں: وزیادۃ الثقۃ مقبولۃ عندنا۔ یعنی: ہمارے نزدیک ثقہ کی زیادتی مقبول ہوتی ہے۔ (الأِلزامات والتتبع: ۳۲۰، العلل: ۲/۲۲۵، نیز دیکھیں: السنن الکبری للبیھقی: ۱/۱۶ ، ۳/۱۲۳) ایک دوسری روایت، جس کو امام حمیدی نے مسند بیان کیا ہے، جب کہ دوسرے راویوں نے مرسل بیان کیا ہے، تو نیموی حنفی اس کے بارے میں لکھتے ہیں: عبد اللہ بن الزبیر الحمیدی ثقۃ حافظ امام، وھو أحد شیوخ البخاری، فزیادتہ ھذہ تقبل جدًّا، لأنھا لیست منافیۃً لروایۃ من ھو أوثقُ منہ۔ یعنی: عبداللہ بن زبیر حمیدی ثقہ امام اور حافظ ہیں، امام بخاری کے اساتذہ میں سے ہیں، ان کییہ زیادتی قبول ہو گی، کیونکہیہ زیادتی اس راوی کی روایت کے منافی نہیں ہے، جو ان سے اوثق ہے۔ (التعلیق الحسن از نیموی: صـ ۱۷) لیکن حدیثِ ہلب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے راوی امام یحییٰ بن سعید القطان، جو ثقہ حافظ ہیں، ان کی علی صدرہ کی زیادتی غیر محفوظ کیوں؟ اس سے نیموی صاحب کی تضاد بیانی ثابت ہوتی ہے، دراصل تقلید پرستوں کے اپنے وضع کردہ من پسند بے بنیاد اصول ہیں، جب چاہیں اور جہاں چاہیں ان کا خون کر دیں، دیکھیں نیموی صاحب نے ایک مقام پر ثقہ کی زیادتی کو مقبول قرار دیا، جبکہ دوسرے مقام پر مردود، در حقیقت اپنے مذہب کے خلاف صحیح حدیث پر طعن کرنا، ان کے دائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ جناب انور شاہ کشمیری دیوبندی صاحب (۱۲۹۲ ۔۱۳۵۲ھ)نے اس حقیقت کا اعتراف کچھ اس طرح کیا ہے: وَقَدْ بَلَوْتُھُمْ أَنَّھُمْ یُسَوُّوْنَ الْقَوَاعِدَ لِلنَّقِیْضَیْنِ فَأَیُّ رَجَائٍ مِّنْھَا بَعْدَہٗ،فَاِذَارَأَی أَحَدُھُمْ حَدِیْثًا ضَعِیْفًا وَافَقَ مَذْہَبَہٗیُسَوِّیْ لَہٗضَابِطَۃً وَیَقُوْلُ: اِنَّ الضُّعْفَ یَنْجَبِرُ بِتَعَدُّدِ الطُّرِقِ، وَاِنْ رَاَی حَدِیْثًا صَحِیْحًا خَالَفَ مَذْہَبَہٗیُسَوِّیْ لَہٗضَابِطَۃً أَیضًاوَیَقُوْلُ: اِنَّہٗشَاذٌ،وَھٰکَذَاجَرَّبْتُھُمْفِیْ مَوَاضِعَ یَفْعَلُوْنَ کَذَالِکَ۔ یعنی: میں نے ان (حنفیوں) کو آزمایا ہے، متناقض و مخالف ادلہ سے استدلال کے لیے قواعد وضع کرتے ہیں، ایسے قواعد کا کیا اعتبار ہے؟ جب یہ کسی ضعیف حدیث کو اپنے مذہب کے موافق پاتے ہیں، تو اس کے لیے ضابطہ بنا کر کہتے ہیں کہ تعدّدِ طرق کی بناء پر اس ضعف کی تلافی ہو جاتی ہے، لیکن جب کسی صحیح حدیث کو اپنے مذہب کے مخالف پاتے ہیں، تو کسی وضع کردہ ضابطے کا سہارا لے کر اسے شاذ قرار دیتے ہیں، میں نے کئی مقامات پر ان کو ایسا کرتے ہوئے آزمایا ہے۔ (فیض الباری: ۲/۳۴۸) یہ حدیث حسن درجہ کی ہے، سینے پر ہاتھ باندھنے کے ثبوت پر واضح اور ٹھوس دلیل ہے، حق پرست کے لیے ایک ہی صحیح دلیل کافی ہوتی ہے، معاند اور ہٹ دھرم کے لیے دلائل کے انبار بھی ناکافی ہیں۔دلیل نمبر (۴): … سیّدنا وائل بن حجر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: صَلَّیْتُ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَوَضَعَ یَدَہُ الْیُمْنٰی عَلٰییَدِہِ الْیُسْرٰی عَلٰی صَدْرِہٖ۔ یعنی: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ نماز پڑھی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنا دایاں ہاتھ بائیں پر رکھ کر دونوں ہاتھ سینے پر باندھے۔ (صحیح ابن خزیمہ: ۱/۲۴۳، حدیث: ۴۷۹، أحکام القرآن للطحاوی: ۱/۱۸۶، حدیث: ۳۲۹) اس میں امام سفیان ثوری کی تدلیس ہے، باقی سند حسن ہے، لیکنیہ حدیث اپنے شواہد کی بنا پر صحیح ہے۔ اس کے راوی مؤمل بن اسماعیل کی جمہور نے توثیق کر رکھی ہے۔(۱)… امام یحییٰ بن معین نے کہاکہ ثقہ ہے۔ (تاریخ ابن معین: صـ۵۹۱، روایۃ الدوری، الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم: ۸/۳۷۴) (۲)… امام احمد بن حنبل اور امام علی بن مدینی نے ان سے روایت لی ہے، وہ عموماً ثقہ سے روایت لیتے ہیں، امام احمد بن حنبل کاقول: کان یخطیٔ موجبِ جرح نہیں۔(۳)… ابن حبان نے ان کو الثقات: ۹/۱۸۷ میں ذکر کیا ہے۔(۴)… ابن شاہین نے بھی الثقات: ص:۲۳۲ میں ذکر کیا ہے۔ (۵)… امام ضیا المقدسی نے المختارۃ: ۱/۳۴۵ میں ذکر کیا ہے، یہ ان کے نزدیک ثقہ ہونے کی دلیل ہے۔ امام ابو زرعہ، امام محمد بن نصر مروزی، امام ساجی اور عبد الباقی بن قانع کی جرح بلاسند ہونے کی وجہ سے مردود ہے، تہذیب التہذیب: ۱۰/۳۸۱ امام دارقطنی کا قول ثقۃ کثیر الخطأ بے ثبوت ہے، جبکہ امام دارقطنی نے ان کی حدیث کو صحیح کہاہے، امام ابو حاتم الرازی فرماتے ہیں: صدوق شدید فی السنۃ، کثیر الخطأ، یکتب حدیثہ (الجرح والتعدیل: ۸/۳۷۴) اس قول میں کثیر الخطأ کی جرح جمہور کی توثیق کے مقابلے میں مردود ہے، جیسا کہ حافظ ذہبی لکھتے ہیں: اذا وثق أبو حاتم رجلا فتمسک بقولہ، فانہ لایوثق أِلا رجلا صحیح الحدیث، وأِذا لین رجلا اوقال فیہ لایحتج بہ فتوقف، حتی تری ما قال غیرہ فیہ، فان وثقہ احد فلا تبن علی تجریح أبی حاتم، فانہ متعنت فی الرجال، قد قال فی طائفۃ من رجال الصحاح: لیس بحجۃ، لیس بالقوی او نحو ذالک۔ یعنی: جب امام ابو حاتم الرازی کسی آدمی کی توثیق کریں تو ان کے قول کو مضبوطی سے پکڑ لے، کیونکہ وہ ایسے آدمی کی توثیق کرتے ہیں جو صحیح الحدیث ہو، جب وہ کسی راوی کی تلیین و کمزوری بیان کریںیا کسی کے بارے میں لایحتج کہہ دیں توآپ توقف کریں،یہاں تک کہ آپ دیکھ لیں کہ دوسرے ائمہ نے اس کے بارے میں کیا کہا ہے، اگر اس راوی کی کسی نے توثیق کر دی، تو امام ابو حاتم کی جرح پر بنیاد نہ ڈالیں کیونکہ وہ راویوں کے بارے میں متشدد ہیں، انہوں نے بخاری ومسلم کے راویوں کی ایک جماعت کے بارے میں لیس بحجۃ اور لیس بالقوی وغیرہ کہہ دیا ہے۔ (سیر أعلام النبلائ: ۱۳/۲۶۰) نیز دیکھیں: (نصب الرایۃ: ۲/۴۳۹) تو ثابت ہوا کہ مؤمل بن اسماعیل کے بارے میں امام ابو حاتم ؒکا کثیر الخطأ کہنا شاذ ہے۔(۶)… ابن سعد نے کہا: ثقۃ کثیر الغلط (الطبقات لابن سعد: ۵/۵۰۱) لیکن ابن سعدؒمتشددہیں، اس قول میں جمہور کے مخالف ہیں نیز وہ عموماً جرح و تعدیل میں واقدی متروک پر اعتماد کرتے ہیں۔(۷)… حافظ ہیثمی نے مؤمل بن اسماعیل کو ثقہ کہا ہے۔ (مجمع الزوائد: ۴/۳۳۳)(۸)… امام الجرح والتعدیل حافظ ذہبی لکھتے ہیں: کان (مؤمل بن اسماعیل) من ثقات البصریین۔ یعنی: مؤمل بن اسماعیل ثقہ بصریوں میں سے تھے۔ (اَلْعِبَر فِیْ خَبَرِ مَنْ غَبَر: ۱/۲۷۴)(۹)… جناب ظفر احمد تھانوی دیوبندی صاحب نے مؤمل بن اسماعیل کو ثقہ قرار دیا ہے۔ (أِعلاء السنن: ۳/۱۰۸) اس کی دو روایتوں کو حسن کہا ہے۔ (اِعلاء السنن: ۳/۶۹، ۹۵) مؤمل بن اسماعیل کے حق میں امام بخاریؒ کے قول منکر الحدیث کو حافظ مزی، حافظ ذہبی اور حافظ ابن حجر نے بلا سند ذکر کیا ہے، امام بخاری کی کسی تصنیف میںیہ قول مذکور نہیں ہے، جبکہ خود امام بخاری نے اپنی صحیح کے شواہد میں اس سے روایت لی ہے۔ (دیکھیں: صحیح البخاری: ۱/۳۷۲، حدیث: ۲۰۰۷، ۲/۱۰۴۹، حدیث: ۷۰۸۳) یہ اس بات پر دلیل ہے کہ راویٔ حدیث مؤمل امام بخاری کے نزدیک منکر الحدیث نہیں ہے۔ جناب ظفر احمد تھانوی دیوبندی صاحب لکھتے ہیں: کل من ذکرہ البخاری فی تواریخہ ولم یطعن فیہ فھو ثقۃ۔ یعنی: ہر وہ راوی ثقہ ہو گا جس کو امام بخاری نے اپنی تواریخ میں ذکر کیا اور اس پر طعن نہیں کیا۔ (قواعد فی علوم الحدیث از ظفر احمد تھانوی:صـ ۲۲۳) اس دیوبندی اصول کے مطابق مؤمل ثقہ ہے۔اعتراض: … حافظ ابن حجر کہتے ہیں: فی حدیثہ عن الثوری ضعف یعنی: امام سفیان ثوری سے مؤمل کی روایت میں ضعف ہوتا ہے۔ (فتح الباری: ۹/۲۳۹، تحت حدیث: ۵۱۷۲)جواب:… قال الأِمام ابن ابی حاتم: انا یعقوب بن اسحق فی ما کتب أِلیَّ، قال: ناعثمان بن سعید، قال: قلت: لیحییٰ بن معین: ای شیء حال المؤمل فی سفیان؟ فقال: ھو ثقۃ۔ یعنی: امام عثمان بن سعید الدارمی کہتے ہیں کہ میں نے امام یحییٰ بن معین سے پوچھا کہ مؤمل جب سفیان سے روایت کرے، تو کیسا ہے، فرمایا: وہ اس وقت ثقہ ہوتا ہے۔ (الجرح والتعدیل: ۸/۳۷۴، وسندہ حسن) اس قول کے راوییعقوب بن اسحق کے بارے میں حافظ ذہبی لکھتے ہیں: یعقوب بن اسحق ابو الفضل الہروی الحافظ، سمع عثمان بن سعید الدارمی ومن بعدہ، وصنف جزأً فی الرد علی اللفظیۃ، روی عنہ عبد الرحمن بن أبی حاتم بالأِجازۃ، وھو أکبر منہ۔ (تاریخ الأِسلام للذہبی: ۲۵/۸۴) مؤمل بن اسماعیل کی سفیان ثوری سے روایت کو امام ابن خزیمہ (۱/۲۴۳)، امام ترمذی (۱۹۴۸)، امام دارقطنی (۲/۱۸۶)، حافظ بغوی (شرح السنۃ: ۱/۴۴۲)، امام حاکم (۱/۳۸۴)، حافظ ابن کثیر (تفسیر ابن کثیر: ۴/۴۲۳، تحت سورۂ معارج:۳۷) نے صحیح کہا ہے۔ لہٰذا امام یحییٰ بن معین اور جمہور محدثین کے قول کے مقابلہ میں حافظ ابن حجر کا قول حجت نہیں ہے۔ امام ابن خزیمہ نے اس حدیث کی تصحیح کی ہے، جناب محمد یوسف بنوری دیوبندی ایک دوسری روایت کے بارے لکھتے ہیں: أخرجہ ابن خزیمۃ فی صحیحہ فھو صحیح عندہ۔ یعنی: اس حدیث کو امام ابن خزیمہ نے اپنی صحیح میں روایت کیاہے، پس یہ حدیث ان کے نزدیک صحیح ہے۔ (معارف السنن از بنوری: ۲/۱۵۰) اس روایت کے دوسرے راوی عاصم بن کلیب حسن الحدیث ہیں، جمہور نے ان کو ثقہ قرار دیا ہے، امام عجلی ۔دلیل نمبر (۵):… ابن جریر الضبی اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں،کہ انہوں نے کہا: رَأَیْتُ عَلِیًّا ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ یُمْسِکُ شِمَالَہٗبِیَمِیْنِہٖ عَلَی الرُّسْغِ فَوْقَ السُّرَّۃِ۔ یعنی: میں نے سیّدنا علی بن ابی طالب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو دیکھا کہ انہوں نے اپنے دائیں ہاتھ سے بائیں کو گٹی سے پکڑ کر انہیں ناف کے اوپر رکھاہوا تھا۔ (ابوداود: ۷۵۷، ابن ابی شیبہ: ۱/۳۹۰، التاریخ الکبیر للبخاری: ۲/۲۱۱، صحیح البخاری مع فتح الباری: ۲/۷۱ معلقًا) یہ اثر حسن ہے،اس کو امام بیہقی نے (السنن الکبری: ۲/۲۹، ۳۰) میں اور حافظ ابن حجر نے (تغلیق التعلیق: ۲/۴۴۳) میں حسن کہا ہے، اس کا راوی ابو بدر شجاع بن ولید کی امام یحییٰ بن معین اور جمہور محدثین نے توثیق کی ہے، اس کی روایت حسن درجہ سے کم نہیں ہے۔دلیل نمبر (۶):… طاؤس کہتے ہیں: کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَضَعُیَدَہُ الْیُمْنٰی عَلٰییَدِہِ الْیُسْرٰی ثُمَّ یَشُدُّ بَیْنَھُمَا عَلٰی صَدْرِہٖ،وَھُوَفِی الصَّلَاۃِ۔ یعنی: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حالتِ نماز میں اپنا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھتے، پھر مضبوطی سے سینے پر باندھ لیتے تھے۔ (ابوداود: ۷۵۹، المراسیل لأبی داود: ۳۳، معرفۃ السنن والآثار للبیہقی: ۲/۳۴۰، التمہید لابن عبد البر: ۲۰/۷۰)تبصرہ:… یہ روایت مرسل صحیح ہے، سلیمان بن موسی الشامی راوی کی امام دحیم الشامی، امام یحییٰ بن معین اور جمہور نے توثیق کر رکھی ہے، امام مسلم نے اپنی صحیح کے مقدمہ میں ان سے روایت لی ہے۔ جناب سرفراز صفدر دیوبندی کہتے ہیں: وثقہ الجمہور یعنی: سلیمان بن موسی کو جمہور نے ثقہ کہا ہے۔ (خزائن السنن: ۲/۸۹) جو لوگ مرسل حدیث کو علی الاطلاق حجت قرار دیتے ہیں، ان کو اس مرسل صحیح پر عمل کرتے ہوئے نماز میں سینے پر ہاتھ باندھنا چاہئیں۔ جناب ظفر احمد تھانوی دیوبندی صاحب لکھتے ہیں: أما أھل القرون الثلاث فمرسلھم مقبول عندنا مطلقًا۔ یعنی: قرون ثلاثہ کے راویوں کی مرسل ہمارے نزدیک مطلق طور پر قبول ہے۔ (قواعد فی علوم الحدیث: ص:۱۳۹، ۱۵۹)جناب شبیر احمد عثمانی دیوبندی صاحب نے کیا خوب لکھا ہے: أِن الأحناف أیضا ربما یغمضون عن ھذہ القیود فی حجیۃ المرسل حینیقعون فی البحث مع خصومھم، ویبنون دعاویھم علی قبول کل مرسل من مراسیل المحدثین، بل بقبول کل منقطع ومعضل عندھم، مع أن الدلیل الذی أقاموا علی حجیۃ المرسل لا ینھض علیہ، فلیُتنبہ لہ۔ یعنی: احناف کئی بار مرسل کے حجت ہونے کے بارے میں قیود سے چشم پوشی کرتے ہیں، جس وقت وہ اپنے حریفوں سے بحث کرتے ہیں، تو وہ اپنے دعوی کی بنیاد مراسیل محدثین میں سے ہر مرسل کے قبول کرنے پر قائم کرتے ہیں (یعنی وہ ہر مرسل کو قبول کرتے ہیں) جو ان کے نزدیک منقطع اور معضل ہو اس کو بھی قبول کرتے ہیں، باجود اس کے کہ جو دلیل مرسل کے حجت ہونے پر قائم کرتے ہیں، وہ اس کے لیے کافی نہیں، پس چاہئے کہ بات سمجھی جائے۔ (مقدمۃ فتح الملھم: صـ ۸۱) حافظ ابن حزم ایک دوسر ے مسئلہ میں لکھتے ہیں: بالمرسل احتججتم علینا فخذوہ أو فلا تحتجوا بہ۔ یعنی: تم مرسل روایت کو ہمارے خلاف پیش کرتے ہو، تو اب یہاں اس کو قبول کرو، یا اس سے حجت نہ پکڑو۔ (المحلی: ۶/۳۷) ماحصل یہ ہے کہ احناف کو ان اصولوں کی بنیاد پر یہ مرسل صحیح بھی قبول کرنی چاہئے۔ یاد رہے کہ ہمارے نزدیک مرسل روایت حجت نہیں ہے، ہم نے یہ روایت الزامًا پیش کی ہے۔زیرناف ہاتھ باندھنے کے دلائل کا علمی وتحقیقی جائزہ قبل اس کے ہم زیر ناف ہاتھ باندھنے کے دلائل کی حقیقت بیان کریںیہ بات انتہائی قابل توجہ ہے کہ پوری شریعت اسلامیہ (قرآن و سنت) میں کوئی ایک دلیل نہیں ملتی کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یا صحابہ کرامfنے مرد اور عورت کے ہاتھ باندھنے میں فرق کیا ہو۔ بعض لوگ سادہ لوح عوام کو دھوکا دینے کے لیےیہ شوشہ چھوڑ دیتے ہیں کہ عورتوں کا سینے پر ہاتھ باندھنا اجماعی مسئلہ ہے حالانکہ یہ بد ترین جھوٹ ہے۔ پوری اُمت کا اجماع تو ایک طرف اس مسئلہ پر تو تقلیدی مذاہب کا بھی اتفاق نہیں، احناف عورتوں کے سینے پر ہاتھ باندھنے کے قائل ہیں تو حنابلہ عورتوں کے زیر ناف ہاتھ باندھنے کے دعوے دار ہیں۔ (دیکھئے: الفقہ علی المذاہب الاربعہ)دلیل نمبر (۱):… سیّدنا وائل بن حجر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: رَأَیْتُ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَضَعُیَمِیْنَہٗ عَلٰی شِمَالِہٖتَحْتَالسُّرَّۃِ۔ یعنی: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیکھا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے نماز میں اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر زیر ناف رکھا۔ (مصنف ابن ابی شیبہ: ۱/۳۹۰)تبصرہ:… واضح رہے کہ اس حدیث میں تحت السرۃ کے الفاظ قاسم بن قُطلوبُغا حنفی (۸۰۲۔ ۸۷۹ھ) نے اپنی طرف سے بڑھائے ہیں، محدث البقاعی اس کے بارے میں فرماتے ہیں: کان (قاسم بن قطلوبغا) کذابا یضع الحدیث۔ یعنی: قاسم بن قطلوبغا پرلے درجے کا جھوٹا تھا، حدیثیںگھڑتا تھا۔ (الضوء اللامع للسخاوی: ۶/۱۸۸) آٹھوی صدی ہجری سے پہلے پہلے اس روایت میں تحت السرۃ (یعنی زیر ناف) کے الفاظ موجود نہیں تھے۔ جناب انور شاہ کشمیری دیوبندی صاحب کہتے ہیں: وفی المصنف لابن أبی شیبۃ تحت السرۃ، فاضطربت الروایۃ جدا وأول من نبہ علی تلک الزیادۃ الأخیرۃ العلامۃ القاسم بن قطلوبغا، ثم ان لفظ تحت السرۃ لم یوجد فی بعض نسخہ، فظن الملا الحیاۃ السندھی انہ وقع فیہ سقط وحذف ثم صار متن الأثر مرفوعا، قلت ولا عجب ان یکون کذالک، فانی راجعت ثلاث نسخ المصنف فما وجدتہ فی واحدۃ منھا۔ یعنی: مصنف ابن ابی شیبہ میں تحت السرۃ کے الفاظ ہیں،یہ روایت سخت ترین مضطرب ہے، علامہ قاسم بن قطلوبغا نے سب سے پہلے ان الفاظ کی زیادتی بیان کی، پھر تحت السرۃ کے الفاظ مصنف ابن ابی شیبہ کے بعض نسخوں میں نہیں پائے گئے، ملا حیات سندھی کا یہ خیال ہے کہ اس حدیثمیں سقط اور حذف واقع ہوا ہے، پھر یہی (قولِ تابعی کے) الفاظ مرفوع حدیث کا متن بن گئے، اور اس طرح ہو جانا تعجب والی بات نہیں ہے، کیونکہ میں نے مصنف ابن ابی شیبہ کے تین نسخوں کا مراجعہ کیا اور کسی ایک نسخے میں بھییہ الفاظ نہیں پائے۔ (فیض الباری: ۲/۲۶۷) جناب تقی عثمانی دیوبندی صاحب کہتے ہیں: لیکن احقر (تقی عثمانی) کی نظر میں اس روایت سے استدلال کمزور ہے، اول تو اس لیے کہ اس روایت میں تحت السرۃ کے الفاظ مصنف ابن ابی شیبہ کے مطبوعہ نسخوں میں نہیں ملے، اگرچہ علامہ نیموی نے آثار السنن میں مصنف کے متعدد نسخوں کا حوالہ دیا ہے، کہ ان میںیہ زیادتی مذکور ہے، تب بھی اس زیادتی کا بعض نسخوں میں ہونا اور بعض میں نہ ہونا اس کو مشکوک ضرور بنا دیتا ہے۔ (درسِ ترمذی: ۲/۲۳) جب یہ زیادتی کسی معتبر نسخے میں موجود نہیں ہے، بقول تقی عثمانی صاحب کسی مطبوعہ نسخے میں بھی نہیں مل سکی، جس کی بناء پر انہوں نے اس حدیث کو مشکوک اور اس سے استدلال کو کمزور قرار دیا ہے، پھر بھی بعض ناعاقبت اندیشوں نے تحریف سے کام لیتے ہوئے مصنف کے بعض مطبوعہ نسخوں میں تحت السرۃ کے الفاظ بڑھا دیئے ہیں، آخر ایسا کیوں ہے؟یہ بھییاد رہے کہ نیموی صاحب کا متعدد نسخوں میں اس زیادتی کے ثابت ہونے کا دعوی مبنی بر حقیقت نہیں ہے۔دلیل نمبر (۲):… قَالَ الْاِمَامُ الْبَیْہَقِیُّ: اَخْبَرَنَا اَبُوْ الْحُسَیْنِ بِنُ الْفَضْلِ بِبَغْدَادَ، اَنْبَأَ أَبُوْ عَمْرٍو بْنُ السِّمَاکِ، ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الْمُنَادِیْ، ثَنَا أَبُوْ حُذَیْفَۃَ، ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ زَرْبِیٍّ عَنْ ثَابِتٍِ عَنْ اَنَسٍ قَالَ: مِنْ أَخْلَاقِ النُّبُوَّۃِ تَعْجِیْلُ الْاِفْطَارِ وَ تَأْخِیْرُ السُّحُوْرِ وَوَضْعُ یَمِیْنِکَ عَلٰی شِمَالِکَ فِیْ الصَّلَاۃِ تَحْتَ السُّرَّۃِ۔ یعنی: سیّدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: (تین چیزیں) نبوی خصائل میں سے ہیں: روزہ افطار کرنے میں جلدی کرنا، سحری کھانے میں تاخیر کرنا اور نماز میں دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر ناف کے نیچے رکھنا۔ (الخلافیات للبیہقی: ق ۲۷ ب، مختصر الخلافیات: ۱/۳۴۲)تبصرہ: … یہ حدیث ضعیف ہے، امام بیہقی اس کو ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں: تفر د بہ سعید بن زربی ولیس بالقوی۔ یعنی: اس روایت کو بیان کرنے میں سعید بن زربی منفرد ہے، وہ قوی نہیں ہے۔ نیز امام بیہقی کہتے ہیں کہ یہ ضعیف ہے۔ (السنن الکبری للبیہقی: ۱/۳۸۳) امام ابو حاتم الرازی کہتے ہیں: سعید بن زربی ضعیف الحدیث، منکر الحدیث، عندہ عجائب من المناکیر۔ یعنی: سعید بن زربی ضعیف الحدیث اور منکر الحدیث ہے،اس کے پاس عجیب و غریب منکر روایات ہیں۔ (الجرح والتعدیل: ۴/۲۴) امام یحییٰ بن معین کہتے ہیں: لیس بشیئ یعنی: یہ راوی کچھ بھی نہیں ہے۔ (تاریخ ابن معین: ۲/۱۹۹، الجرح والتعدیل: ۴/۲۴) امام بخاری کہتے ہیں: عندہ عجائب یعنی: اس کے پاس عجیب و غریب روایات ہیں۔ (التاریخ الکبیر: ۳/۴۷۳) امام نسائی کہتے ہیں: لیس بثقۃ یعنی: یہ راوی ثقہ نہیں ہے۔ (ضعفاء النسائی: ص:۵۴) امام دارقطنی نے بھی اس کو ضعیف کہا ہے۔ (سنن دارقطنی: ۱/۲۴۴) نیز اس کو متروک بھی کہا ہے۔ (الضعفاء والمتروکین للدارقطنی: ۲۷۲) امام ابن حبان کہتے ہے: یروی الموضوعات عن الأثبات۔ یعنی: یہ ثقہ راویوں کے حوالے سے جھوٹی روایات بیان کرتا ہے۔ (المجروحین لابن حبان: ۱/۳۱۸) حافظ ابن الجوزی نے اسے ضعیف کہا ہے۔ (التحقیق لابن الجوزی: ۱/۲۴۶) حافظ عبد الحق الأشبیلی کہتے ہیں: عندہ عجائب، لا یتابع علیھا، وھو ضعیف الحدیث۔ یعنی: اس کے پاس ایسی عجیب و غریب روایات ہیں، جن پر اس کی متابعت نہیں کی گئی،یہ ضعیف الحدیث ہے۔ (کتاب الأحکام الوسطی: ۱/۳۴۲) حافظ ذہبی لکھتے ہیں: ضعّفوہ یعنی: محدثین نے اس کو ضعیف کہا ہے۔ (الکاشف: ۱/۲۸۵) حافظ ابن حجر نے اسے (تقریب میں) منکر الحدیث اور (فتح الباری: ۲/۱۰۳ ، التلخیص الحبیر۱/۱۷۹ میں) ضعیف کہا ہے۔ امام عینی حنفی لکھتے ہیں کہ یہ ضعیف ہے۔ (عمدۃ القاری: ۵/۱۷۵) امام زیلعی حنفی نے اس پر جرح ذکر کی ہے۔ (دیکھیں: نصب الرایۃ: ۱/۲۸۵) اس کی ایک دوسری حدیث کو حافظ نووی نے سخت ترین ضعیف کہا ہے۔ (خلاصۃ الأحکام از نووی: ۲/۶۷۴)دلیل نمبر (۳): … سیّدنا علی بن ابی طالب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: مِنْ سُنَّۃِ الصَّلَاۃِ وَضْعُ الْیَمِیْنِ عَلَی الشِّمَالِ تَحْتَ السُّرَّۃِ۔ یعنی: ناف کے نیچے دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھنا سنت ہے۔ (زوائد مسند الامام احمد: ۱/۱۱۰، ابوداود: ۷۵۶، دارقطنی: ۱/۲۸۶، السنن الکبری للبیہقی: ۲/۳۱، مصنف ابن ابی شیبہ: ۱/۳۹۱)تبصرہ: … یہ حدیث ضعیف ہے، اس کی سند میں عبد الرحمن بن اسحق الکوفی الواسطی راوی ہے، جس کو حافظ ابن حجر نے ضعیف کہا ہے۔ (تقریب التہذیب: ص:۱۹۸، فتح الباری: ۱۳/۵۲۳)امام زیلعی حنفی، حافظ نووی سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ھو حدیث متفق علی تضعیفہ، فان عبد الرحمن بن اسحق ضعیف بالاتفاق۔ یعنی: اس حدیث کے ضعیف ہونے پر اتفاق ہے، کیونکہ اس میں عبد الرحمن بن اسحق راوی بالاتفاق ضعیف ہے۔ (نصب الرایۃ: ۱/۳۱۴، خلاصۃ الأحکام للنووی: ۱/۲۵۵، شرح صحیح مسلم: ۱/۱۷۳) جناب انور شاہ کشمیری دیوبندی صاحب کہتے ہیں: عبد الرحمن بن اسحق ابو شیبہ الواسطی، وھو متفق علی ضعفہ یعنی: عبد الرحمن بن اسحق کے ضعیف ہونے پر اتفاق ہے۔ (العرف الشذی: ۱/۷۶، ۷۸، ۱۵۶) نیز کہتے ہیں کہ عبد الرحمن بن اسحق ضعیف ہے۔ (فیض الباری: ۳/۲۵۹، مشکلات القرآن: ص:۹۱) نیموی حنفی نے اس کو ضعیف کہا ہے۔ (التعلیق الحسن: ص:۹۱)جناب تقی عثمانی دیوبندی صاحب کہتے ہیں: اس روایت کا مدار عبد الرحمن بن اسحق پر ہے، جو ضعیف ہے۔ (درسِ ترمذی: ۲/۲۴) دوسری بات یہ ہے کہ اس کی سند میں زیاد بن زید مجہول راوی ہے۔ (تقریب التہذیب: ص:۱۱۰) امام ابن القطان کہتے ہیں: لایعرف یعنی: یہ غیرمعروف راوی ہے۔ (نصب الرایۃ از زیلعی حنفی: ۱/۳۱۴) یاد رہے کہ سیّدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے ناف کے اوپر ہاتھ باندھنا ثابت ہے، جیسا کہ گزر چکا ہے۔جناب سرفراز صفدر دیوبندی صاحب امام ابن القیم سے نقل کرتے ہیں: حدیث علی صحیح حضرت علی کی حدیث صحیح ہے۔ (خزائن السنن: ص:۳۳۶) آگے چل کر ضروری نوٹ کی سرخی جما کر لکھتے ہیں: ہم نے اپنے استدلال میں ا بوداود، السنن الکبری، دار قطنی، مسند احمد کیوہ روایت جو حضرت علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مرفوعًا آتی ہے، پیش نہیں کی، جس میں تحت السرۃ کے لفظ ہیں، جس کے بارے میں امام نوویؒ فرماتے ہیں: متفقون علی ضعفہ کیونکہ اس کی سند میں عبدالرحمن بن اسحق الکوفی ہے، قاضی شوکانی نیل الأوطار میں لکھتے ہیں: قال النووی: ھو ضعیف بالاتفاق۔ (خزائن السنن: ص:۳۳۷) مطلب صاف ظاہر ہے کہ جناب سرفراز صاحب یہ باور کرا رہے ہیں کہ سیّدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی حدیث زیر ناف ہاتھ باندھنے کے بارے میں، جو ابوداود، السنن الکبری وغیرہ میں آتی ہے، وہ ضعیف ہے اور ناقابل استدلا ل ہے، کیونکہ اس میں عبد الرحمن بن اسحق ضعیف بالاتفاق ہے، ہم جس روایت سے استدلال پکڑتے ہیں، وہ ابن ابی شیبہ میں سیّدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی حدیث ہے، جس کو امام ابن القیم نے صحیح قرار دیا ہے، حالانکہ سیّدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی روایت میںیہی ضعیف راوی عبد الرحمن بن اسحق الواسطی موجود ہے۔ (دیکھیں: مصنف ابن ابی شیبہ: ۱/۳۹۱) جبکہ جناب سرفراز صفدر صاحب خود کہتے ہیں: (مصنف ابن ابی شیبہ:۱/۳۹۱) طبع کراچی میںیہ الفاظ ہیں: عن علی قال: من سنۃ الصلاۃ أن توضع الأیدی علی الأیدی تحت السرر وفی السند عبد الرحمن بن اسحق۔ (خزائن السنن: ص: ۳۳۶) اندازہ لگائیں کہ کتنا بڑا دھوکہ اور چال بازی ہے کہ وہی راوی جس کو ضعیف بالاتفاق تسلیم کیا ہے، اسی کے ضعف کو ڈکار کر اس کی روایت سے حجت پکڑ رہے ہیں، آخر ایسی تضاد بیانی کی کیا وجوہات ہیں؟ امانت علمی کے بھی کچھ تقاضے ہوتے ہیں۔ جناب تقی عثمانی دیوبندی صاحب یہ حقیقت تسلیم کر چکے ہیں کہ اس روایت کا مدار عبد الرحمن بن اسحق پر ہے، جو ضعیف ہے۔ (درس ترمذی: ۲/۲۴)دلیل نمبر (۴):… ابو وائل کہتے ہیں کہ ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: أَخْذُ الْأَکُفِّ عَلَی الْأَکُفِّ فِیْ الصَّلَاۃِ تَحْتَ السُّرَّۃِ۔ یعنی: نماز میں ہتھیلیوں کو ہتھیلیوں پر ناف کے نیچے رکھنا ہے۔ (ابوداود: ۷۵۸، التمہید: ۲۰/۷۸)تبصرہ: … اس کی سند میں وہی عبد الرحمن بن اسحق الواسطی ضعیف راوی ہے، جس کا حال اوپر گزر چکا ہے، امام ابوداؤد خود اس حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں: لیس بالقوی۔ یعنی: یہ حدیث قوی نہیں ہے۔ دلیل نمبر (۵):… ابن عبد البر نے کہا: ذکر الأثرم: قال حدثنا ابو الولید الطیالسی، قال: حدثنا حماد بن سلمۃ عن عاصم الجحدری عن عقبۃ بن صہبان سَمِعَ عَلِیًّا،یَقُوْلُ فِیْ قَوْلِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ: {فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ} قَالَ: وَضْعُ الْیُمْنٰیعَلَی الْیُسْرٰی تَحْتَ السُّرَّۃِ یعنی: عقبہ بن صہبان کہتے ہیں کہ میں نے سیّدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو اللہ تعالیٰ کے فرمان {فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ} کی تفسیر میں فرماتے ہوئے سنا کہ اس سے مراد دائیں ہاتھ کو بائیں پر ناف کے نیچے رکھنا ہے۔ (التمہید: ۲۰/۷۸)تبصرہ: … (۱)… یہ روایت (التاریخ الکبیر للبخاری: ۶/۴۳۷، السنن الکبری للبیہقی: ۲/۳۰، الأوسط لابن المنذر: ۳/۹۱، حدیث: ۱۲۸۶، أحکام القرآن للأِمام الطحاوی: ۱/۱۸۴،الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم: ۶/۲۱۲، الکشف والبیان المعروف بہ تفسیر الثعلبی: ۱/۳۱۰) وغیرھم میںعاصم الجحدری عن أبیہ عن عقبہ سے ہے، عاصم الجحدری اور عقبہ کے درمیان عاصم کے باپ کا واسطہ ہے، یہ المزید فی متصل الأسانید میں سے ہے، عاصم کا اس روایت میں عقبہ سے حدثنی ثابت نہیں ہے، عاصم کا باپ مجہول الحال ہے، لہٰذا روایت ضعیف ہے۔(۲)… اس روایت کو امام ابن ترکمانی حنفی نے مضطرب قرار دیا ہے، اس روایت کو کسی حنفی امام نے پیش نہیں کیا، کسی ثقہ مسلمان نے تحت السرۃ کے الفاظ کی زیادتی کی صحت کا دعوی نہیں کیا، جبکہ التمہید ایک متداول کتاب ہے، معلوم ہوتا ہے کہ تحت السرۃ کی بجائے علی الصدر کے الفاظ ہوسکتے ہیں،یہ مخطوط دیکھ کر ہی بتایا جا سکتاہے۔ (۳)… خلیفۂ راشد سیّدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا عمل اس تفسیر کے خلاف ہے، وہ اس طرح کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے ناف کے اوپر ہاتھ باندھنا ثابت ہے، جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔دلیل نمبر (۶):… ابن حزم نے سیدہ عائشہ c سے تعلیقاً اور مسند الامام زید میں سند کے ساتھ سیّدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ تین باتیں تمام انبیاکرام کے اخلاق سے ہیں: افطاری میں جلدی کرنا، سحری میں تاخیر کرنا اور نماز میںدایاں ہاتھ بائیں پر ناف کے نیچے رکھنا۔ (مجموعۂ رسائل از محمد امین اوکاڑوی: ۱/۳۲۷، حدیث اور اہلحدیث: ص: ۲۷۷)تبصرہ: … مسند الامام زید، زیدی شیعوں کی جھوٹی کتاب ہے، اس کتاب کی سند میں عمر و بن خالد الواسطی راوی بالاتفاق وضّاع (یعنی جھوٹی حدیثیں گھڑنے والا) اور کذّاب ہے۔ امام ابو زرعہ الرازی نے کہا: وکان یضع الحدیث یعنی: یہ جھوٹی حدیثیں گھڑتا تھا۔ (الجرح والتعدیل: ۶/۲۳۰) امام اسحق بن راہویہ کہتے ہیں: کان عمرو بن خالد الواسطییضع الحدیث۔ یعنی: عمرو بن خالد حدیثیں گھڑتا تھا۔ (أیضاً) امام یحییٰ بن معین کہتے ہیں: کذاب، غیرثقۃ، ولا مأمون۔ یعنی: یہ کذاب تھا، ثقہ اور مامون نہیں تھا۔ (أیضاً) امام احمد بن حنبل کہتے ہیں: متروک الحدیث لیسیسوی شیئا۔ یعنی: یہ متروک الحدیث ہے، یہ کسی چیز کے ہم پلہ نہیں ہے۔ (أیضاً)امام ابو حاتم الرازی کہتے ہیں: متروک الحدیث، ذاھب الحدیث، لایشتغل بہ۔ یعنی: یہ متروک الحدیث اور ذاھب الحدیث ہے، اس کی حدیث کے ساتھ مشغول نہ ہوا جائے۔ (أیضاً) اس کتاب کی سند کا دوسرا راوی عبد العزیز بن اسحق بن البقال غالی شیعہ اور ضعیف ہے۔ (دیکھیں: لسان المیزان: ۴/۲۵، تاریخ بغداد: ۱/۴۵۸) اس کتاب میں بہت ساری من گھڑت روایا ت ہیں۔ معلوم ہوا کہ یہ کتاب موضوع اور من گھڑت ہے، کسی سنی کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ اس کتاب سے روایت پیش کرے۔ جناب انور شاہ کشمیری دیوبندی صاحب کہتے ہیں: ألا أِن الآفۃ فی کتابہ من حیث جہالۃ ناقلیہ۔ یعنی: مصیبتیہ ہے کہ اس کتاب کے ناقلین مجہول ہیں۔ (فیض الباری: ۲/۲۴۱)دلیل نمبر (۷):… ابراہیم نخعی فرماتے ہیں: نمازی نماز میں دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر ناف کے نیچے رکھے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ: ۱/۳۹۱)تبصرہ: (۱)… یہ نہ قرآ ن ہے، نہ حدیث اور نہ اجماع۔(۲)… حنفی لوگ، امام ابوحنیفہ کے مقلد ہیں، نہ کہ ابراہیم نخعی کے، لہٰذا ان کو چاہئے کہ باسند صحیح امام ابوحنیفہ سے زیر ناف ہاتھ باندھنے کا ثبوت پیش کریں، ورنہ تسلیم کریں کہ وہ اس مسئلہ میں امام ابوحنیفہ کے مقلد نہیں ہیں۔قارئین کرام! یقینی بات ہے کہ اس تحریر کا ایک دفعہ کا مطالعہ آپ کے لیے فائدہ مند نہیں ہو گا، اس لیے بار بار بغور پڑھیں