Blog
Books
Search Hadith

تکبیر تحریمہ کے بعد، قراء ت سے پہلے، {وَلَاالضَّآلِّیْنَ} کہنے کے بعد اور سورت (کی تلاوت)کے بعد یعنی رکوع سے پہلے سکتوں کا بیان

۔ (۱۵۴۹)(وَمِنْ طَرِیقٍ ثَالِثٍ) حَدَّثَنَا عَبْدُاللّٰہِ حَدَّثَنِیْ أَبِیْ ثَنَا عَفَّانُ ثَنَا یَزِیْدُبْنُ زُرَیْعٍ عَنْ یُوْنُسَ قَالَ وَإِذَا فَرَغَ مِنْ قِرَائَ ۃِ السُّوْرَۃِ (مسند احمد: ۲۰۵۳۱)

(تیسری سند ) جب سیّدنا سمرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سورت کی قراء ت سے فارغ ہوتے تو (سکتہ کرتے) ۔
Haidth Number: 1549
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Doubtful

ضعیف

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۵۴۹) تخریـج:… انظر الحدیث بالطریق الاول وطرقہ (انظر: ۲۰۲۶۷)۔

Wazahat

فوائد:… تین سکتات کی صحت ۔ تکبیر تحریمہ کے بعد اور قراء ت سے پہلے والا سکتہ تو بخاری و مسلم کی حدیث سے ثابت ہے۔باقی سکتوں کے حوالہ سے علماء کے ہاں معروف اختلاف چلا آ رہا ہے۔ مولفِ فوائدn نے باقی دو سکتات کی بھی صحت کے بارے بات کی ہے۔ جبکہ حدیث زیرِ مطالعہ کو تخریج میں حسن کے سمرہ سے سماع کے ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے مرسل قرار دیا گیا ہے۔بعض علماء حسن بصرہ کے سمرہ سے سماع کو ثابت سمجھتے ہیں۔ لیکن علامہ ناصر الدین البانی نے فرمایا ہے کہ اس جگہ اصل ضعف یہ ہے کہ حسن بصری مدلس ہیں اور وہ عَنْ کے ساتھ بیان کر رہے ہیں۔ سماع کی صراحت نہیں کر رہے اور محدثین کے ہاں یہ اصول ہے کہ مدلس کے عنعنہ والی حدیث قابل حجت نہیں ہوتی۔ (مزید تفصیل دیکھیں: ہدایۃ الرواۃ تحقیق از البانی ‌رحمتہ ‌اللہ ‌علیہ ‌ رقم الحدیث: ۲/۷۸۲) (عبداللہ رفیق) جو اہل علم اس حدیث کی صحت کے قائل ہیں ان کی دلیلیہ ہے کہ حسن کی سمرہ سے معنعن روایات بھی صحیح ہوتی ہیں اس لیے کہ یہ روایت کتاب سے ہے جو کہ بطورِ منادلہ ہے یا اجازہ یا بطورِ وجادہ اور یہ تینوں صورتیں محدثین کے ہاں معتبر ہیں بشرطیکہ اس کتاب کی نسبت صحیح ثابت ہو اور نسخہ بھی صحیح و مرثوق ہو (دیکھئے: مقدمہ ابن الصلاح مع شرح العراقی صفحہ ۲۰۰ تا ۲۰۲) حسن بصری کے پاس سمرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی کتاب کا موجود ہونا دلائل صحیحہ سے ثابت ہے۔ اس کتاب میں سے حسن بصری نے ایک حدیث ( حدیث العقیقہ) سیّدنا سمرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے سنی تھی لہٰذا نماز میں دیگر سکتات کا بھی اہتمام ہونا چاہیے۔ (از عارفی) شارحین نے رکوع سے پہلے والے سکتے کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ قراء ت اور تکبیر کے درمیان فاصلہ ہو جائے اور امام ذرا سانس لے لے۔