Blog
Books
Search Hadith

دعائے استفتاح اور قراء ت سے پہلے تعوذ کا بیان

۔ (۱۵۵۳) عَنْ نَافِعٍ بْنِ جُبَیْرِ بْنِ مُطْعِمٍ عَنْ أَبِیْہِ قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ فِی التَّطَوُّعِ: اَللّٰہُ أَکْبَرُ کَبِیْرًا ثَـلَاثَ مِرَارٍ، وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ کَثِیْرًا ثَـلَاثَ مِرَارٍ وَسُبْحَانَ اللّٰہِ بُکْرَۃً وَأَصِیْلاًثَـلَاثَ مِرَارٍ، اللّٰہُمَّ إِنْیْ أَعُوْذُ بِکَ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ مِنْ ھَمْزِہِ وَنَفْثِہِ وَنَفْخِہِ۔ قُلْتُ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! مَا ھَمْزُہُ وَنَفْثُہُ وَنَفْخُہُ؟ قَالَ أَمَّا ھَمْزُہُ فَالْمُؤْتَۃُ الَّتِی تَأْخُذُ ابْنَ آدَمَ (وَفِی رِوَایَۃٍ قَالَ فَذَکَرَ کَہَیْئَۃِ الْمُوْتَۃِیَعْنِییُصْرَعُ) وَأَمَّا نَفْخُہُ الْکِبْرُ وَنَفْثُہُ الشِّعْرُ۔ (مسند احمد: ۱۶۸۶۰)

سیّدناجبیر بن مطعم کہتے ہیں: میں نے سنا کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے نفلی نماز تین مرتبہ اَللَّہُ اَکْبَرُ کَبِیْرًا ،تین مرتبہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ کَثِیْرًا اور تین مرتبہ سُبْحَانَ اللّٰہِ بُکْرَۃً وَّأَصِیْلاً پڑھا اور پھر یہ کہا: أَعُوْذُ بِاللَّہِ السَّمِیْعِ الْعَلِیْمِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ مِنْ ھَمْزِہٖوَنَفْثِہٖونَفْخِہٖ۔ میں نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! اس کے ھَمْز ، نَفْث اور نَفْخ سے کیا مراد ہے؟آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ھَمْز سے مراد جنون اور دیوانگی ہے، جو آدم کے بیٹے پر طاری ہو جاتی ہے، پھراس جنون کی کیفیت ذکر کی، جس میں وہ بے ہوش ہو کر گر جاتا ہے ، اور اس کے نفخ سے مراد تکبر اور نفث سے مراد شعر ہے۔
Haidth Number: 1553
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۵۵۳) تخریـج:… حسن لغیرہ، وھذا اسناد ضعیف لضعف الراوی عن نافع بن جبیر، أخرجہ ابوداود: ۷۶۵ (انظر: ۱۶۷۳۹)۔

Wazahat

فوائد:… اس حدیث سے یہ دعائے استفتاح ثابت ہوئی: اَللّٰہُ أَکْبَرُ کَبِیْرًا، اَللّٰہُ أَکْبَرُ کَبِیْرًا، اَللّٰہُ أَکْبَرُ کَبِیْرًا، اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ کَثِیْرًا،اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ کَثِیْرًا،اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ کَثِیْرًا، سُبْحَانَ اللّٰہِ بُکْرَۃً وَأَصِیْلاً ، سُبْحَانَ اللّٰہِ بُکْرَۃً وَأَصِیْلاً ، سُبْحَانَ اللّٰہِ بُکْرَۃً وَأَصِیْلاً ۔ ان تین جملوں کا ترجمہ یہ ہے: اللہ سب سے بڑا ہے، بہت بڑا۔ ساری تعریف اس کی ہے، جو بہت زیادہ ہے۔ وہ پاک ہے، صبح و شام ہم اس کی پاکی بیان کرتے ہیں۔ پہلے جملے میں لفظ کَبِیرا کی تین تراکیب ہو سکتی ہیں: (۱) یہ اُکَبِّرُ کا مفعول ہے، یا (۲) تَکْبِیْرًا محذوف کی صفت ہے، یا (۳) یہ حال ہے جو پورے جملے کے معنی میں تاکید پیدا کر رہا ہے۔ اس حدیث میں صرف صبح و شام کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس سے مراد تسلسل ہے، یعنی ہر وقت اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کی جا رہی ہے، جیسے قرآنِ مجید میں ہے {وَ لَہُمْ رِزْقُہُمْ فِیْہَا بُکْرَۃً وَّ عَشِیًّاo} (مریم: ۶۲) اور ان کے لیے اس میں ان کا رزق صبح اور شام ہو گا۔ اس سے مراد یہ ہے کہ ان کو جنت میں ہر وقت رزق ملے گا۔ (عبداللہ رفیق) یا چونکہ صبح و شام کو رات اور دن کے فرشتے جمع ہوتے ہیں، اس لیے صرف ان اوقات کا ذکر کیا گیا۔