Blog
Books
Search Hadith

سورۃ الفاتحہ کی تفسیر اور اس کی دلیل جس کا یہ خیال ہے کہ {بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ} فاتحہ کی آیت نہیں ہے

۔ (۱۵۶۸)(وَعَنْہُ مِنْ طَرِیقٍ ثَانٍ بِنَحْوِہِ) وَفِیْہِ: ((أَیُّمَا صَلَاۃٍ لَایُقْرَأُ فِیْہَا بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ فَھِیَ خِدَاجٌ ثُمَّ ھِیَ خِدَاجٌ ثُمَّ ھِیَ خِدَاجٌ)) وَفِیْہِ: ((فَإِذَا قَالَ {مَالِکِ یَوْمِ الدِّینِ} قَالَ: فَوَّضَ إِلَیَّ عَبْدِیْ۔ فَإِذَا قَالَ: {إِیَّاکَ نَعْبُدُ وَإِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ} قَالَ: فَہٰذِہِ بَیْنِیْ وَبَیْنَ عَبِدِیْ وَلِعَبْدِیْ مَاسَأَلَ، وَقَالَ مَرَّۃَ: مَاسَأَلَنِیْ، فَیَسْأَلُہُ عَبْدُہُ {اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ أَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلَا الضَّالِّیْنَ} قَالَ: ھٰذَا لِعَبْدِیْ، لَکَ مَاسَأَلْتَ، وَقَالَ مَرَّۃً وَلِعَبْدِیْ مَاسَأَلَنِیْ۔)) (مسند احمد: ۷۲۸۹)

۔ (دوسری سند )اس میں ہے:آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس نماز میں بھی سورۂ فاتحہ نہیں پڑھی جاتی تو وہ ناقص ہے، پھر وہ ناقص ہے، پھر وہ ناقص ہے۔ اور اس روایت میں (یہ بھی) ہے: جب بندہ {مَالِکِ یَوْمِ الدِّیِن} پڑھتا ہے تو اللہ فرماتا ہے: میرے بندے نے (معاملہ) میرے سپرد کر دیا ہے۔ جب بندہ پڑھتا ہے: {إِیَّاکَ نَعْبُدُ وَإِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ} تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:یہ تو میرے اور میرے بندے کے درمیان (معاہدہ) ہے اور بندے کے لیے وہ ہے جو اس نے مجھ سے سوال کیا۔ پھر بندہ سوال کرتے ہوئے کہتا ہے: {اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِیْمَ صِرَاطَ الَّذِیْنَ أَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلَا الضَّالِّیْنَ} تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: یہ میرے بندے کے لیے ہے، (بندے!) تیرے لیے وہ ہے جو تو نے سوال کیا ہے۔ اور ایک روایت میں ہے: اور میرے بندے کے لیے وہ ہے جو اس نے مجھ سے سوال کیا۔
Haidth Number: 1568
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۵۶۸) تخریـج:… أخرجہ مسلم: ۳۹۵، وانظر الحدیث بالطریق الاول (انظر: ۷۲۹۱)۔

Wazahat

فوائد:… سورۂ فاتحہ ، نما زکا اتنا اہم رکن ہے کہ اس حدیث میں اسی کو نماز کہا گیا ہے۔ اس کی تقسیم معنی کے اعتبار سے ہے کہ ایک حصے میں محض اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی گئی ہے اور دوسرے حصہ بندے کے لیے دعا پر مشتمل ہے۔ کیا اس حدیث کا یہ مفہوم ہے کہ {بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ} نہ سورۂ فاتحہ کی آیت ہے اور نہ اس سورت کے ساتھ اس کی تلاوت کی جا سکتی ہے؟ حقیقتیہ ہے کہ واضح طور پر یہ مفہوم کشید نہیں کیا جا سکتا ہے، کیونکہ کسی چیز کے عدم ذکر سے اس کا عدم لازم نہیں آتا، لہٰذا دوسری روایات کی مدد سے {بِسْمِ اللّٰہِ…} کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا۔ مزید آپ خود بھی غور کریں۔ فاتحہ کے ساتھ {بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ} تلاوت کرنی ہے یا نہیں، مندرجہ بالا ابواب میں مختلف احادیث گزر چکی ہیں، مزید ملاحظہ فرمائیں: سیدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم {بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ اَلَحْمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ} کی تلاوت کرتے اور ایک ایک حرف کو واضح کر کے پڑھتے۔ (مستدرک حاکم: ۸۴۷) سیّدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ((اِذَا قَرَأْتُمْ {اَلَحْمْدُ لِلّٰہِ} فَاقْرَؤٗا {بِسْمِاللّٰہِالرَّحْمٰنِالرَّحِیْمِ} اِنَّہَا اُمُّ الْقُرْآنِ، وَاُمُّ الْکِتَابِ، وَالسَّبْعُ الْمَثَانِیْ، وَ {بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ} اِحْدَاھَا۔)) یعنی جب تم {اَلَحْمْدُ لِلّٰہِ} پڑھو تو {بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ} بھی پڑھو، یہ (سورۂ فاتحہ) ام القرآن، ام الکتاب ہے اور سبع مثانی (یعنی بار بار پڑھی جانے والی سات آیات ہیں) اور {بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ} اس کی ایک آیت ہے۔ (سلسلہ احادیث صحیحہ: ۱۱۸۳، بحوالہ دارقطنی: ۱۱۸، بیہقی: ۲/۴۵، دیلمی: ۱/۱/۷۰) سیّدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: سیّدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے مدینہ منورہ میں نماز پڑھائی، بآواز بلند قراء ت کی، اور سورۂ فاتحہ سے قبل {بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ} پڑھی، لیکن (فاتحہ کے بعد والی) سورت کے ساتھ {بِسْمِ اللّٰہِ …} نہ پڑھی، جب سیّدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے سلام پھیرا تو ہر طرف سے مہاجرین اور انصار (اعتراض کرنے کے لیے) بول اٹھے اور کہا: اے معاویہ! آپ نے نماز میں سے کچھ چوری کر لیا ہے (کہ دوسری سورت کے ساتھ بسم اللہ نہیں پڑھی) یا بھول گئے ہیں؟ (سیّدنا امیرمعاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سمجھ گئے اور)اس واقعہ کے بعد جب نماز پڑھائی تو فاتحہ کے بعدوالی سورت کے ساتھ بھی {بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ} پڑھی اور سجدہ کے لیے گرتے وقت اللہ اکبر کہا۔ (مستدرک حاکم: ۸۵۱) نعیم مجمر کہتے ہیں: صَلَّیْتُ وَرَائَ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ فَقَرَأَ {بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ} ثُمَّ قَرَأَ بِأُمِّ الْقُرْآنِ حَتّٰی اِذَا بَلَغَ {غَیْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَیْہِمْ وَلَا الضَّالِّیْنَ} فَقَالَ: آمِیْن، فَقَالَ النَّاسُ: آمِیْن، وَیَقُوْلُ کُلَّمَا سَجَدَ: اَللّٰہُ اَکْبَرُ، وَاِذَا قَامَ مِنَ الْجُلُوْسِ فِیْ الْاِثْنَتَیْنِ قَالَ: اَللّٰہُ اَکْبَرُ، وَاِذَا سَلَّمَ قَالَ: وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ! اِنِّیْ لَاَشْبَھُکُمْ صَلَاۃً بِرَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ۔ (سنن نسائی: ۹۰۶، صحیح ابن خزیمہ: ۱/ ۲۵۱، شرح معانی الاثار: ۱/ ۱۳۷) یعنی: میں نے سیّدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی اقتدا میں نماز پڑھی، انھوں نے {بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ} پڑھی ، پھر فاتحہ شریف کی تلاوت کی، جب وہ {غَیْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَیْہِمْ وَلَا الضَّالِّیْنَ} تک پہنچے تو انھوں نے آمِین کہی اور لوگوں نے بھی آمِین کہی، جب وہ سجدہ کرتے تو اللہ اکبر کہتے، اسی طرح جب دو رکعتوں کے بعد کھڑے ہوتے تو اللہ اکبر کہتے۔ جب انھوں نے سلام پھیرا تو کہا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میں تم میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی نماز کے ساتھ سب سے زیادہ مشابہت رکھتا ہوں۔ امام ترمذی نے کہا: سیّدنا ابو بکر، سیّدنا عمر، سیّدنا عثمان اور سیّدنا علی سمیت صحابہ کرام اور تابعین میں سے کئی اہل علم اور امام سفیان ثوری، امام عبد اللہ بن مبارک، امام احمد اور امام اسحاق رحمہم اللہ جمیعا کییہ رائے کہ {بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ} کی تلاوت جہراً نہ کی جائے، بلکہ اس کو دل میں پڑھا جائے۔ (ترمذی: ۲۴۴ کے بعد) نیز انھوں نے کہا: سیّدنا ابو ہریرہ، سیّدنا عبد اللہ بن عمر، سیّدنا عبد اللہ بن عباس اور سیّدنا عبد اللہ بن زبیر سمیت بعض صحابہ کرام اور بعض تابعین کا یہ مسلک ہے کہ (جہری نمازوں میں فاتحہ کے ساتھ) {بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ} کو بھی جہراً پڑھا جائے، امام شافعی ‌رحمتہ ‌اللہ ‌علیہ ‌ کی بھییہی رائے ہے۔ (ترمذی: ۲۴۵ کے بعد) قارئین کرام! آپ اس موضوع سے متعلقہ درج بالا تمام روایات پر غور کریں، ان میں جمع و تطبیق کی صورت یہی نظر آتی ہے کہ جن روایات میں {بِسْمِ اللّٰہِ…} کی نفی کی گئی ہے، ان سے مراد جہر کی نفی ہے، اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا اکثرو بیشتریہی معمول رہا، بسا اوقات آپ سے اس کو جہراً پڑھنا ثابت ہے، جن صحابہ کرام نے سختی سے اِس آیت کو پڑھنے سے منع کیا، ان کے علم میں اس کو ثابت کرنے والی احادیث نہیں تھیں۔ آپ اس دعوی کو ناممکن یا محال نہ سمجھیں کیونکہ جو لوگ {بِسْمِ اللّٰہِ …} کے جہر کو روایۃً اور عملاً ثابت کر رہے ہیں، وہ بھی صحابہ کرام ہی ہیں۔ کئی دوسرے مسائل میں جمع و تطبیق کییہ صورتیں موجود ہیں، ہماری ذمہ دارییہ ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے ایک موضوع سے متعلقہ جو کچھ ثابت ہے، اس کو سمجھیں اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کریں، الا یہ کہ کوئی ناسخ و منسوخ کی صورت پیدا ہو جائے۔