Blog
Books
Search Hadith

فاتحہ پڑھنے کے وجوب کا بیان

۔ (۱۵۷۰)(وَعَنْہُ مِنْ طَرِیقٍ ثَانٍ) قَالَ قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَا صَلَاۃَ لِمَنْ لَمْ یَقْرأْ بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَصَاعِدًا ۔ (مسند احمد: ۲۳۱۲۹)

(دوسری سند )وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس کی کوئی نماز نہیں،جس نے ام القرآن کی تلاوت نہ کی اور اس سے زیادہ بھی۔
Haidth Number: 1570
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۵۷۰) تخریـج:… أخرجہ مسلم: ۲۹۴، وابوداود: ۸۲۲، و لم یتفرد الزھری فی زیادۃ لفظۃ فصاعدا بل ھو متابع، وانظر الحدیث بالطریق الاول (انظر: ۲۲۷۴۹)

Wazahat

فوائد:… اگر ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ کی تلاوت کفایت کرتی ہے تو لفظ فَصَاعِدًا (فاتحہ سے زیادہ) کیوں لایا گیا، کیونکہ اس سے معلوم ہو رہا ہے کہ فاتحہ شریف کے بعد بھی تلاوت ہونی چاہیے؟جواباً درج ذیل دلائل اور لغوی قانون کا مطالعہ کریں: سیّدنا ابو قتادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم … اور ظہر وعصر کی آخری دو رکعتوں میں صرف سورۂ فاتحہ کی تلاوت کرتے تھے۔ (صحیح بخاری: ۷۷۶، صحیح مسلم: ۴۵۱) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صرف فاتحہ شریف پر رکعت مکمل ہو جاتی ہے، ذہن نشین رہے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے ظہر کی آخری دو رکعتوں میں فاتحہ شریف کے ساتھ مزید قراء ت کرنا بھی ثابت ہے۔ (صحیح مسلم: ۴۵۲) سیّدنا ابوسعید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: امرنا نبینا ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان نقرأ بفاتحۃ الکتاب وما تیسر۔ یعنی: ہمارے نبی ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ ہم سورۂ فاتحہ کی تلاوت کریں اور (اس کے علاوہ) جو آسان لگے۔ (مسند احمد: ۱۰۹۹۸، ابوداود: ۸۱۸، ترمذی: ۲۳۸، ابن ماجہ: ۸۳۹، واسنادہ صحیح علی شرط شیخین) سیّدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: فی کل صلاۃیقرأ، فما أسمعنا رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أسمعناکم وما أخفی عنا أخفینا عنکم، وان لم تزد علی أم القرآن اجزأت، وان زدت فھو خیر۔ (بخاری، مسلم) یعنی: ہر نماز میں قراء ت ہے، پس رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں جو سنایا، ہم بھی تم کو سنا دیتے ہیں، اور جو ہم سے مخفی رکھا، ہم بھی اسے تم سے مخفی رکھتے ہیں، اگر تم سورۂ فاتحہ سے زیادہ تلاوت نہ کرو تو وہی کفایت کرے گی اور اگر اس سے زیادہ کر لو تو بہت اچھا ہے۔ اہل لغت کہتے ہیں: فا کے بعد والی چیز ضروری نہیں ہوتی، سیبویہ نے باب الاضافہ میں اس کی وضاحت کی ہے، اس فا اور اس کے مابعد کو لانے کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ کوئییہنہ سمجھ لے کہ اس سے ماقبل پر ہی اکتفا کرنا ضروری ہے۔ اس کی وضاحت یہ ہے کہ اگر اس حدیث میں فَصَاعِدًا کا لفظ نہ لایا جاتا تو کوئییہ سمجھ سکتا تھا کہ نماز میںسورۂ فاتحہ سے زیادہ تلاوت نہیں کی جا سکتی، کیونکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے صرف اس سورت کا ذکر کیا ہے، اس وہم کو فَصَاعِدًا کے ذریعے دور کر دیا گیااوریہ ثابت کر دیا کہ کم از کم فاتحہ شریف کی تلاوت ہونی چاہیے، اس سے زائد نمازی کی مرضی پر منحصر ہے۔ اس بات کا ذکر امام بخاری نے ((تُقْطَعُ الْیَدُ فِیْ رُبُعِ دِیْنَارٍ فَصَاعِدًا)) کی مثال دے کر جزء القراء ۃ میں اور حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں بھی کیا ہے۔ (ملخص از مرعاۃ المفاتیح: ۳/ ۱۱۰) معلوم ہوا کہ فَصَاعِدًا سے مراد یہ ہے کہ سورۂ فاتحہ پر اکتفا کرنا درست ہے اور کوئی اس سے زیادہ تلاوت کرنا چاہے تو افضل عمل ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔ سیّدنا عبادہ بن صامت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی اس حدیث کے ساتھ ساتھ سابقہ باب میں گزر جانے والی درج ذیل حدیث پر بھی توجہ کریں: سیّدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ((مَنْ صَلّٰی صَلَاۃً لَمْ یَقْرَأْ فِیْہَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ (وَفِیْ رِوَایَۃٍ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ) فِھَی خِدَاجٌ، ھِیَ خِدَاجٌ غَیْرُ تَمَامٍ۔)) قَالَ أَبُوْ السَّائِبِ لِأَبِیْ ھُرَیْرَۃَ: إِنِّیْ أَکُوْنُ أَحْیَانًا وَرَائَ الإِْمَامِ، قَالَ أَبُوْ السَّائِبِ: فَغَمَزَ أَبُوْھُرَیْرَۃَ ذِرَاعِیْ، فَقَالَ: یَافَارِسِیُّ! اِقْرَأْھَا فِیْ نَفْسِکَ۔)) (مسلم: ۳۹۵، مسند احمد:۷۸۳۶) یعنی: جس نے نماز پڑھی اور اس میں اس نے ام القرآن یعنی سورۂ فاتحہ نہیں پڑھی تو وہ نماز ناقص ہے، ناقص ہے، نامکمل ہے۔ ابو لسائب نے سیّدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا: بسا اوقات میں امام کے پیچھے ہوتا ہوں، (تو اس وقت میں فاتحہ کی تلاوت کیسے کروں)؟ سیّدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے جواب دیتے ہوئے میرے بازو کو دبایا اور کہا: اے فارسی! اسے اپنے دل میں پڑھ لیاکر۔ قابل غور بات یہ ہے کہ ان دو احادیث کے راوی سیّدنا عبادہ بن صامت اور سیّدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما ہیں، سیّدنا عبادہ بن صامت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ خودامام کے پیچھے سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے قائل اور فاعل تھے۔ (کتاب القراء ہ للبیہقی) اور سیّدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بھی امام کی اقتدا میں سورۂ فاتحہ کی تلاوت کرنے کا فتوی دیتے تھے اور فقہ حنفی مین یہ قانون مسلّم ہے کہ راوی اپنی روایت کو زیادہ سمجھتا ہے (العبرۃ بما رأی لا بما روی)۔ جیسا کہ جناب عینی حنفی نے لکھا: الصحابی الراوی اعلم بالمقصود۔ یعنی: حدیث کو روایت کرنے والے صحابی اپنی روایت کے مقصود کو سب سے بڑھ کر سمجھنے والے ہوتے ہیں۔ (عمدۃ القاری) سیّدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ابو سائب کو فتوی دیا کہ اس سورت کو اپنے میں دل پڑھ لیاکر۔ اس سے بعض لوگوں نے یہ سمجھا ہے کہ دل میں پڑھنے سے مراد تدبر اور تفکر ہے، پڑھنا مراد نہیں ہے، لیکن اِن کییہ تاویل انتہائی نا قابل قبول ہے، کیونکہ قراء ت عربی زبان کا لفظ ہے، جب تک کوئی لفظ زبان سے ادا نہیں ہوتا، اسے قرائت نہیں کہا جا سکتا۔