Blog
Books
Search Hadith

فاتحہ پڑھنے کے وجوب کا بیان

۔ (۱۵۷۶) عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ سَوَادَۃَ الْقُشَیْرِیِّ قَالَ حَدَّثَنِیْ رَجُلٌ مِنْ أَھْلِ الْبَادِیَۃِ عَنْ أَبِیْہِ وَکَانَ أَبُوْہُ أَسِیْرًا عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ سَمِعْتُ مُحَمَّدًا ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ: ((لَا تُقْبَلُ صَلَاۃٌ لَا یُقْرَأُ فِیْہَا بِأُمِّ الْکِتَابِ۔)) (مسند احمد: ۲۱۰۲۱)

عبد اللہ بن سوادہ قشیری کہتے ہیں: مجھے ایک دیہاتی آدمی نے اپنے باپ، جو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس قیدی تھا، سے بیان کیا کہ اس نے محمد رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: وہ نماز قبول نہیں ہوتی، جس میں ام الکتاب (یعنی فاتحہ شریف) کی تلاوت نہیں کی جاتی۔
Haidth Number: 1576
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۵۷۶) تخریـج:… صحیح لغیرہ، وھذا اسناد ضعیف لجھالۃ الرجل البدوی الذی روی عنہ عبد اللہ بن سوادۃ، وفی الباب احادیث اخری مذکورۃ فی ھذا الباب (انظر: ۲۰۷۴۱)

Wazahat

فوائد:… امام بغوی نے کہا: مقتدی کا امام کے پیچھے سورۂ فاتحہ پڑھنا، اس کے بارے میں اہل علم صحابہ و تابعین کا اختلاف پایا جاتا ہے، ایک جماعت کا خیال ہے کہ امام جہری قراء ت کرے یا سرّی، مقتدی کے لیے اس سورت کی تلاوت کرنا واجب اور ضروری ہے، یہ مسلک سیّدنا عمر، سیّدنا عثمان، سیّدنا علی، سیّدنا عبداللہ بن عباس، سیّدنا معاذ، سیّدنا ابی بن کعب سے منقول ہے اور امام مکحول، امام اوزاعی، امام شافعی اور ابو ثور کی بھییہی رائے ہے، ان لوگوں کا خیال ہے کہ اگر مقتدی کے لیے ممکن ہو تو امام کے سکتے میں فاتحہ کی تلاوت کر لے، وگرنہ اس کے ساتھ ہی پڑھتاجائے، ……۔ (شرح السنۃ: ۳/ ۸۴ تا ۸۶) یہی مسلک سیّدنا ابو ہریرہ اور سیّدنا عبادہ بن صامت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما کا ہے، جو فاتحہ کی فرضیت والی روایات کے راوی بھی ہیں۔ قارئین کرام! کسی مسئلہ میں سلف صالحین کے اختلاف کا یہ معنی نہیں ہوتا کہ جو رائے اختیار کر لی جائے، اس کی گنجائش ہوتی ہے، مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ متعلقہ مسئلہ کے بارے میں تحقیق کرے اور یقین کے ساتھ ایک رائے قائم کرے۔ مجھے اس ضمن میں سب سے زیادہ تعجب احناف پر ہے، صاحب ہدایہ لکھتے ہیں: وأدنی ما یجزیء من القراء ۃ فی الصلوۃ آیۃ عند أبی حنیفۃ وقالا: ثلاث آیاتقصار او آیۃ طویلۃ لأنہ لا یسمی قاریا بدونہ فأشبہ قراء ۃ ما دون الآیۃ ولہ قولہ تعالی: {فَاقْرَئُ وْا مَا تَیَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ} من غیر فصل۔ یعنی: امام ابو حنیفہؒکےنزدیک نماز میں کم از کم کفایت کرنے والی قراء ت ایک آیت ہے، لیکن صاحبین کا خیال ہے کہ چھوٹی آیتیں تین اور بڑی ایک ہونی چاہیے، کیونکہ اس کے بغیر تو اسے قاری بھی نہیں کہا جا سکتا، پس وہ ایک آیت سے بھی کم والی قراء ت سے مشابہ ہو جائے گا۔ اور امام ابوحنیفہ کے حق میں اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے: قرآن سے جو آسان لگے وہ پڑھو۔ اس آیت میں (ایک آیتیا زیادہ) کی کوئی تفصیل نہیں ہے۔ (ہدایہ اولین: ص ۱۱۹) حیرانی اور تعجب کی بات یہ ہے کہ اس باب میں کتنی احادیث گزری ہیں، جن میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ کی قراء ت کو ضروری قرار دیا ہے، بالخصوص وہ حدیث، جس کے مطابق آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے نماز فجر کے بعد جہری نمازوں میں بھی مقتدی کو فاتحہ شریف پڑھنے کی حکم دیا۔ لیکن احناف نے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان {فَاقْرَئُ وْا مَا تَیَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ} کو جنابِ ابو حنیفہؒکےایک آیت والے قول کی روشنی میں خاص کر دیا کہ ایک آیت ضروری ہے، لیکن مذکورہ بالا احادیث ِ مبارکہ کی روشنی میں سورۂ فاتحہ کے ساتھ تخصیص نہیں کی۔ او اللہ کے بندو! کیا تم نے یہ نہیں سوچا کہ نبی ٔ معظم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تو یہ فرماتے ہیں کہ فاتحہ شریف کی تلاوت ضروری ہے، امام ابوحنیفہؒ کا قول یہ ہے کہ ایک آیت ضروری ہے اور ان کے دو شاگردوں کا خیال ہے کہ چھوٹی آیتیں ہوں تو تین اور بڑی ہوں تو ایک ضروری ہے۔ اب کس کی مانو گے؟ اس سے بڑا ظلم کیا ہو گا کہ جس مقدس ہستی پر {فَاقْرَئُ وْا مَا تَیَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ} والی آیت سمیت پورا قرآن مجید نازل ہواتھا، اس کی سات آیتوں والی فاتحہ شریف کی تفسیر اور تخصیص کو نظر انداز کر دیا اور بعد والوں کی ایک آیت کی تخصیص کو تسلیم کر لیا جائے۔ امام ابوحنیفہ کے بڑے دو شاگردوں نے ان کے اس فتوے کو مطلق طور پر تسلیم نہیں کیا اور چھوٹی تین آیتوں کی رائے پیش کر دی۔ اگر تم لوگ بھییہ فتوی تسلیم نہ کرو اور احادیث کی روشنی میں سورۂ فاتحہ کی رائے پیش کر دو تو کون سا آسمان زمین پر آ لگے گا؟ میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ یہ تقلیدی جرم کا نتیجہ ہے، ان لوگوں نے خواہ مخواہ کی ایک فرد کی تقلید کو اپنے اوپر لازم کر لیا، اس کا نتیجہیہ نکلا کہ ان احادیث ِ مبارکہ کی پروا بھی نہ کی جو امام صاحب کے فتوی کے مخالف جا رہی تھیں، حالانکہ امام ابو حنیفہؒ نے تو فرمایا تھا: صحیح حدیث میرا مذہب ہے، جب تم میرے قول کو حدیث کے مخالف پاؤ تو اسے دیوار پر دے مارنا۔ اگر تقلید کرنی ہی تھی تو امام صاحب کا یہی قول مان کر احادیث پر عمل کرنا شروع کر دیتے۔