Blog
Books
Search Hadith

مقتدی کی قراء ت اور جب اپنے امام کو سنے تو اس کے خاموش ہونے کا بیان

۔ (۱۵۷۹) عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ أَنَّ رَسُوْلَ اللَّہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم صَلّٰی صَلَاۃً جَہَرَ فِیْہَا بِالْقِرَائَ ۃِ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَی النَّاسِ بَعْدَ مَا سَلَّمَ فَقَالَ: ((ھَلْ قَرَأَ مِنْکُمْ أَحَدٌ مَعِیْ آنِفًا؟)) قَالُوْا: نَعَمْ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! قَالَ: ((إِنِّیْ أَقُوْلُ مَالِیْ أُنَازَعُ الْقُرْآنَ۔)) فَانْتَھَی النَّاسُ عَنِ الْقِرَائَ ۃِ مَعَ رَسَوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِیْمَا یَجْھَرُ بِہِ مِنْ الْقِرَائَ ۃِ حَیْنَ سَمِعُوْا ذٰلِکَ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ۔ (مسند احمد: ۷۸۰۶)

سیّدناابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک نماز پڑھائی جس میں آپ نے بلند آواز سے قراء ت کی، سلام پھیرنے کے بعد لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور پوچھا: کیا ابھی تم میں سے کسی نے میرے ساتھ قراء ت کی ہے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں! اے اللہ کے رسول! آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تبھی تومیں کہتا تھاکہ مجھے کیا ہو گیاہے، مجھ سے قرآن کھینچا جا رہا ہے (یعنی قرآن مجھ سے جھگڑا کر رہا ہے اور اختلاط کی وجہ سے پڑھا نہیں جا رہا)۔ جب لوگوں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے یہ حدیث سنی تو وہ ان نمازوں میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ تلاوت کرنے سے باز آ گئے، جن میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بلند آواز سے قراء ت کرتے تھے۔
Haidth Number: 1579
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۵۷۹) تخریـج:… حدیث صحیح، أخرجہ ابوداود: ۸۲۷، وابن ماجہ: ۸۴۸، وأما قولہ فی آخر الحدیث فانتھی الناس …۔ فالاشھر انہ من قول الزھری۔ (انظر: ۷۲۷۰، ۷۸۱۹)

Wazahat

فوائد:… یہ آخری جملہ، جس میں لوگوں کے باز آنے کی بات کی جا رہی ہے، یہ امام زہری کا قول ہے، جو مرسل ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اس حدیث ِ مبارکہ میں مقتدی لوگوں کو امام کے پیچھے جہری قراء ت کرنے سے روکا جا رہا ہے، اگر اس سے یہ استدلال کیا جائے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مقتدیوں کو مطلق طور پر قراء ت کرنے سے روک رہے ہیں تو حدیث نمبر (۵۲۳) کی روشنی میں اس حدیث کے مفہوم کو سمجھ لیا جانا چاہیے، اس میں بھییہی وجہ بیان کی گئی ہے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے تلاوت کرنا مشکل ہو گیا تھا، لیکن اس میں ساری تفصیل بیان کر دی گئی ہے، اُس حدیث کا ترجمہ یہ ہے: سیّدناعبادہ بن صامت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں نماز فجر پڑھائی، آپ پر قراء ت بوجھل ہونے لگی، اس لیے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فارغ ہو کر پوچھا: میرا خیال ہے کہ تم بھی اپنے امام کے پیچھے قراء ت کرتے ہو؟ ہم نے کہا: جی ہاں! اللہ کی قسم! اے اللہ کے رسول! بلا شک و شبہ ہم ایسا کرتے ہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ایسے نہ کیا کرو (یعنی میرے پیچھے نہ پڑھا کرو) سوائے سورۂ فاتحہ کے، کیونکہ جس نے اس کی تلاوت نہ کی، اس کی کوئی نماز نہیں۔ یہی مفہوم ابھی آنے والی حدیث نمبر (۵۳۲) میں بھی پیش کیا گیا ہے۔ قارئین کرام! ہم نے فاتحہ شریف کے بارے میں جمع و تطبیق کی جو صورت پیش کی ہے کہ عام احادیث کو خاص احادیث کی روشنی میں سمجھا ہے، تویہ کوئی ہمارے ذہن کی اختراع یا بعید از قیاس بات نہیں ہے، بلکہ قرآن و حدیث کی کئی نصوص میں مطلق و مقید اور عام وخاص کا قانون بالاتفاق لاگو ہوتا ہے۔ مثلا:… ایک حدیث میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا کہ زمین کو میرے لیے مسجد بنا دیا گیا ہے، لیکن دوسری حدیث میں تخصیص کر دی اور مقبرہ اور حمام میں نماز پڑھنے کی اجازت نہیں دی۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مختلف احادیث میں طلوعِ آفتاب، زوال اور غروب آفتاب جیسے مکروہ اوقات میں نماز پڑھنے کی اجازت نہیں دی، لیکن دوسری حدیث میں مسجد حرام میں ان اوقات میں بھی نماز پڑھنے کی تخصیص کر دی۔ مختلف احادیث میں نیند کو ناقضِ وضو قرار دیا گیا، لیکن نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی ذات کی تخصیص کر دی گئی کہ نیند کی وجہ سے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا وضو نہیں ٹوٹے گا۔ اس قسم کی بیسیوں مثالیں موجود ہیں، کہ ایک مقام پر عام حکم دے دیا جاتا ہے، لیکن دوسرے مقام پر اس کی تخصیص کر دی جاتی ہے، یہی معاملہ مقتدی کے لیے فاتحہ شریف کے پڑھنے کا ہے، کہ اگر ایک حدیث میں مقتدی کو خاموش رہنے کا عام حکم دیا جا رہا ہے تو کئی احادیث میں سورۂ فاتحہ کی تلاوت کی تخصیص بھی کی جا رہی ہے۔ یہ شارع علیہ السلام کا حق ہے، ہماری عقل کا مسئلہ نہیں ہے۔