Blog
Books
Search Hadith

آمین کہنے او رقراء ت میں اسے بلند آواز یاآہستہ کہنے کا بیان

۔ (۱۵۹۶) وَعَنْہُ أَیْضًا قَالَ: صَلّٰی بِنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَلَمَّا قَرَأَ {غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَا الضَّالِّیْنَ} قَالَ آمِیْنَ وَأَخْفٰی بِہَا صَوْتَہُ وَوَضَعَ یَدَہُ الْیُمْنٰی عَلَییَدِہِ الْیُسْرٰی وَسَلَّمَ عَنْ یَمِیْنِہِ وَعَنْیَسَارِہِ۔ (مسند احمد: ۱۹۰۶۰)

اور سیدنا وائل بن حجر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے یہ بھی روایت ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں نماز پڑھائی، پس جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے {غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَا الضَّالِّیْنَ} پڑھا تو آمین کہا اور اس کے ساتھ اپنی آواز کو آہستہ کیا اور اپنا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھا اور دائیں بائیں سلام پھیرا۔
Haidth Number: 1596
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۵۹۶) تخریج: حدیث صحیح دون قولہ: واخفی بھا صوتہ فقد أخطأ فیہا شعبۃ۔ أخرجہ الطیالسی: ۱۰۲۴، والبیھقی: ۲/ ۵۷، والدار قطنی: ۱/ ۳۳۴ (انظر: ۱۸۸۵۴)

Wazahat

فوائد:… مذکورہ بالا حدیث غور طلب ہے، امام سفیان نے اس کو یوں بیان کیا ہے: سیدنا وائل بن حجر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو سنا، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے {وَلَا الضَّالِّیْنَ} پڑھا تو آمین کہا اور اپنی آواز کو لمبا کیا۔ (مسند احمد: ۱۸۸۴۲، ابوداود: ۹۳۲، ترمذی: ۲۴۸، دارقطنی: ۱/ ۳۳۳، دارمی: ۱۲۴۷، ابن ابی شیبہ: ۲/ ۴۲۵) لیکن جب امام شعبہ نے بیان کیا تو ان کے الفاظ یہ تھے: جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے {وَلَا الضَّالِّیْنَ} پڑھا تو آمین کہا اور اپنی آواز کو پست کیا۔ (حوالہ اوپر گزر چکا ہے) یہ کوئی پریشان کن صورت نہیں ہے، کیونکہ جب امام سفیان اور امام شعبہ کا اختلاف ہو جائے تو امام سفیان کے قول کو ترجیح دی جاتی ہے۔ ائمہ کرام نے اسی اصول کو ترجیح دی ہے۔ امام بخاری نے اپنی تاریخ میں امام شعبہ کی اس خطا پر تنبیہ کی ہے، پھر امام ترمذی نے اپنی جامع اور العلل الکبیر میں ان سے نقل کیا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ علاء بن صالح نے امام سفیان کی آمین بالجہر والی روایت پر متابعت کی ہے، اس متابعت کا ذکر ابن ابی شیبہ: ۱/ ۲۹۹، ابوداود: ۹۳۳، ترمذی: ۲۴۹ میں موجود ہے۔ (انظر: ۱۸۸۴۲، وشرحہ) خلاصۂ کلام: سیدنا وائل بن حجر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی روایت سے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا بلند آواز سے آمین کہنا ثابت ہوتا ہے۔ آمین بالجہر کے مزید دلائل درج ذیل ہیں: سیدناابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِذَا فَرَغَ مِنْ قِرَائَ ۃِ أُمِّ الْقُرْآنِ رَفَعَ صَوْتَہٗوَقَالَ: ((آمِیْن۔))… جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ام القرآن (سورۂ فاتحہ) کی قرائـت سے فارغ ہوتے تو آواز کو بلند کرتے ہوئے آمین کہتے۔ (ابن حبان:۴۶۲، دارقطنی: ۱۲۷، حاکم: ۱/۲۲۳، بیھقی: ۲/ ۵۸،صحیحہ:۴۶۴) شیخ البانی ‌رحمتہ ‌اللہ ‌علیہ ‌ لکھتے ہیں: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ امام کا بلند آواز سے آمین کہنا مشروع ہے۔ امام شافعی، امام احمد اور امام اسحق وغیرہ کا یہی مسلک ہے، البتہ امام ابوحنیفہ اور ان کے پیروکار اس کے قائل نہیں ہیں۔ سیدھی سی بات ہے کہ اِن لوگوں کے پاس کوئی دلیل نہیں، سوائے ان عمومات کے جو اس امر پر دلالت کرتے ہیں کہ ذکر میں اصل قانون یہ ہے کہ آواز کو پست رکھا جائے۔ لیکن اس قسم کے عام دلائل، اس باب کی خاص اور واضح روایات کے مقابلے میں مفید ثابت نہیں ہو سکتے۔ بہرحال اس حقیقت کو ایسے اہل علم سمجھ پائیں گے، جن کو اللہ تعالیٰ نے عقلی جمود اور مذہبی تعصب سے پاک رکھا ہے۔ (صحیحہ: ۴۶۴) سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ((مَا حَسَدَتْکُمُ الْیَہُوْدُ عَلٰی شَیْئٍ مَا حَسَدَتْکُمْ عَلٰی آمِیْن، فَأَکْثِرُوْا مِنْ قَوْلِ آمِیْن۔))… جس قدر تم پر یہودی، آمین سے چڑتے ہیں، اتنا کسی اور چیز سے تم پر نہیں چڑتے، لہٰذا تم کثرت سے آمین کہنا۔ (ابن ماجہ، صحیح ابن خزیمہ) امام ابو حنیفہ کے استاد امام عطاء بن ابی رباح کہتے ہیں: میں نے دو سو (۲۰۰) صحابہ کو دیکھا کہ بیت اللہ میں جب امام {وَلَا الضَّالِّیْنَ} کہتا تو سب بلند آواز سے آمین کہتے۔ (بیہقی) نعیم مجمر کہتے ہیں: سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ہمیں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے طریقے کے مطابق نماز پڑھائی، پھر نعیم اس طریقے کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انھوں نے آمین کہی اور جو لوگ آپ کی اقتدا میں نماز پڑھ رہے تھے انھوں نے بھی آمین کہی۔ (نسائی) ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ((إِذَا قَرَأَ الإِْمَامُ: {غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلاالضَّالِیْنَ} فَأَمَّنَ الإِمَامُ فَأَمِّنُوْا، فَإِنَّ الْمَلَائِکَۃَ تُؤَمِّنُ عَلٰی دُعَائِہٖ،فَمَنْوَافَقَتَأْمِیْنُہُ تَأْمِیْنَ الْمَلَائِکَۃِ غُفِرَ لَہُ مَاتَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہٖ۔)) … جبامام {غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَا الضَّالِّیْنَ} پڑھ کر آمین کہے تو تم آمین کہو، کیونکہ فرشتے بھی امام کی دعا پر آمین کہتے ہیں اور جس کی آمین فرشتوں کی آمین سے موافقت کر گئی اس کے سابقہ گناہ بخش دیے جائیں گے۔ (أبو یعلی :۴/۱۴۰۸، صحیحہ:۲۵۳۴) شیخ البانی ‌رحمتہ ‌اللہ ‌علیہ ‌ نے کہا: اس حدیث سے یہ استدلال کرنا بھی درست ہے کہ مقتدیوں کو آمین بآواز بلند کہنا چاہیے، ایک دوسری کتاب میں میں نے اسی استنباط کی طرف اپنے میلان کا اظہار کیا ہے، کیونکہیہ استدلال سیدنا عبد اللہ بن زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے اثر اور سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی مرفوع حدیث کے مطابق ہے۔ (صحیحہ: ۲۵۳۴) سیدناعبد اللہ بن زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کاکون سا اثر مراد ہے؟ اس کے بارے میں امام البانی ‌رحمتہ ‌اللہ ‌علیہ ‌ نے خود کہا: پھر میں نے امام بخاری کو دیکھا، انھوں نے صیغۂ جزم کے ساتھ سیدنا ابن زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا معلق اثر ذکر کیا۔ جس پر کلام کرتے ہوئے حافظ ابن حجر نے (فتح الباری: ۲/ ۲۰۸) میں کہا: عبد الرزاق نے اس اثر کو ابن جریج عن عطاء کی سند سے موصول بیان کیا ہے، ابن جریج نے عطاء سے پوچھا: کیا عبد اللہ بن زبیر سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد آمین کہتے تھے؟ انھوں نے کہا: جی ہاں، اور اس کے مقتدی بھی آمین کہتے تھے، حتی کہ مسجد گونج اٹھتی تھی۔ پھر انھوں نے کہا: آمین دعا ہے۔ میں (البانی) کہتا ہوں کہ یہ روایت مصنف عبد الرزاق (۲۶۴۰) میں ہے اور امام ابن حزم نے انہی کی سند کے ساتھ (المحلی: ۳/ ۳۶۴) میں بیان کی ہے۔ چونکہ ابن جریج نے یہ روایت عطاء سے براہِ راست لینے کی وضاحت کی ہے، اس لیے ان کی تدلیس کا خطرہ ٹل گیا ہے اور ابن زبیر کا اثر ثابت ہو گیا ہے۔ اسی قسم کا اثر سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے بھی مروی ہے، ابو رافع کہتے ہیں: سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ مروان بن حکم کے مؤذن تھے۔ انھوں نے مروان پر شرط لگائی ہوئی تھی کہ وہ اس وقت تک {وَلَاالضَّآلِیْن} نہیں کہہ سکتا، جب ان کے آنے کا علم نہ ہو جائے۔ پس جب مروان {وَلَا الضَّاْلِیْن} کہتا تھا تو سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آمین کہتے اور اپنی آواز کو لمبا کرتے اور کہتے تھے: جب زمین والوں کی آمین، آسمان والوں کی آمین سے موافقت کرتی ہے تو ان کو بخش دیا جاتا ہے۔ (بیہقی: ۲/ ۵۹) اس کی سند صحیح ہے۔ سیّدنا ابوہریرہ اور سیدنا عبد اللہ بن زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے آمین بالجہر کہنا صحیح ثابت ہوگیا ہے، اس کے برعکس کسی صحابی سے کوئی اثر ثابت نہیں ہے، اس لیے اسی بات پر دل مطمئن ہو جاتا ہے کہ بلند آواز سے آمین کہنا چاہیے۔ واللہ اعلم۔ (سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ: ۹۵۲)