Blog
Books
Search Hadith

ظہر و عصر میں قراء ت کا بیان

۔ (۱۶۲۵) عَنْ أَبِیْ الْعَالِیَۃِ قَالَ: اِجْتَمَعَ ثَـلَاثُونَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالُوْا أَمَّا مَا یَجْہَرُ فِیْہِ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِالْقِرَائَ ۃِ فَقَدْ عَلِمْنَاہُ، وَمَا لَایَجْھَرُ فِیْہِ فَلاَ نَقِیْسُ بِمَا یَجْہَرُ بِہِ ، قَالَ: فَاجْتَمَعُوا فَمَا اخْتَلَفَ مِنْہُمْ اثْنَانِ أَنَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَانَ یَقْرأُ فِیْ صَلَاۃِ الظُّہْرِ قَدْرَ ثَلاَثِیْنَ آیَۃً فِی الرَّکْعَتَیْنِ الْأُوْلَیَیْنِفِی کُلِّ رَکْعَۃٍ، وَفِی الرَّکْعَتَیْنِ الْأُخْرَیَیْنِ قَدْرَ النِّصْفِ مِنْ ذَلِکَ، وَیَقْرَأُ فِی الْعَصْرِ فِی الْأُوْلَیَیْنِ بِقَدْرِ النِّصْفِ مِنْ قِرَائَ تِہِ فِی الرَّ کْعَتَیْنِ الْأُ وَلَیَیْنِ مِنَ الظُّہْرِ، وَفِی الْأُخْرَیَیْنِ قَدْرَ النِّصْفِ مِنْ ذَلِکَ۔ (مسند احمد: ۲۳۴۸۵)

ابو العالیہ کہتے ہیں: تیس صحابہ جمع ہوئے اور انھوں نے کہا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم (جن نمازوں) میں بلند آواز سے قراء ت کرتے تھے، اس کو تو ہم جانتے ہیں، لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم (جن نمازوں میں) جہری قراء ت نہیں کرتے تھے، اب ان کو جہر والی نمازوں پر قیاس تو نہیں کرتے۔ پھر وہ اس امر پر متفق ہو گئے اور ان میں کوئی دو بھی اختلاف کرنے والے نہیں تھے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نماز ظہرکی پہلی دو رکعتوں میں تیس تیس آیتوں کے بقدر اور دوسری دو رکعتوںمیں اس سے نصف کے بقدر تلاوت کرتے تھے، اور عصر کی پہلی دو رکعتوں میں ظہر کی پہلی دو رکعتوںکے نصف کے برابر اور اس کی آخری دو رکعتوں میں اس سے بھی نصف کے بقدر تلاوت کرتے تھے۔
Haidth Number: 1625
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۶۲۵) تخریج: حدیث صحیح، وھذان اسنادا ضعیفان۔ أخرجہ ابن ماجہ: ۸۲۸ (انظر: ۲۳۰۹۷)

Wazahat

فوائد:… ظہر و عصر کی تلاوت کی مقدار کے بارے میں مذکورہ بالا اور دیگر مختلف روایات مروی ہیں، کسی سے طویل مقدار کا ثبوت ملتا ہے اور کسی سے مختصر مقدار کا۔ امام نووی نے اس صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے کہا: علمائے کرام کا خیال ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نمازیوں کے حالات کو دیکھ کر اطالت یا اختصار اختیار کرتے تھے، اگر مقتدی لمبی نماز کو پسند کر رہے ہوتے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی اور ان کی کوئی مصروفیت بھی نہ ہوتی تو قیام کو لمبا کر دیا جاتا تھا، بصورت ِ دیگر اختصار کو ملحوظِ خاطر رکھا جاتا تھا، کبھی کبھار ایسے بھی ہوتا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا ارادہ تو یہ ہوتا کہ طویل قیام کیا جائے، لیکن کسی عذر کے جنم لینے کی وجہ سے مختصر قیام کو ترجیح دی جاتی تھی، مثلا بچے کے رونے کی آواز سننا، …۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ بیمار، کمزور اورحاجت مند لوگوں کی وجہ سے تخفیف کو ہی ترجیح دی جائے، اگر یہ وجوہات معدوم ہوں تو طوالت کو اختیار کر لینا چاہیے۔