Blog
Books
Search Hadith

قراء ت کے سری اورجہری ہونے کا اور ترتیل وغیرہ کا بیان

۔ (۱۶۵۲) حَدَّثَنَاعَبْدُاللّٰہِ حَدَّثَنِیْ أَبِیْ حَدَّثَنَا وَکِیْعٌ عَنْ نَافِعِ بِنْ عُمَرَ (ح) ابن عبد اللہ بن جمیل وأبو عامر، حدثنا نافع عَنِ ابْنِ أَبِیْ مُلَیْکَۃَ عَنْ بَعْضِ أَزْوَاجِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ نَافِعٌ: أُرَاھَا حَفْصَۃَ أَنَّہَا سُئِلَتْ عَنْ قِرَائَ ۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَتْ: إِنَّکُمْ لاَتَسْتَطِیْعُوْنَہَا، قَالَ: فَقِیْلَ لَھَا: أَخْبِرِیْنَا بِہَا، قَالَ: فَقَرَأَتْ قِرَائَ ۃً تَرَسَّلَتْ فِیْہَا، قَالَ أَبُوْعَامِرٍ: قَالَ نَافِعٌ: فَحَکَی لَنَا اِبْنُ أَبِیْ مُلَیْکَۃَ {اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ} ثُمَّ قَطَعَ، {اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ}، ثُمَّ قَطَعَ، {مَالِکِ یَوْمِ الدَّیِْن}۔ (مسند احمد: ۲۷۰۰۳)

ایک زوجۂ رسول، غالبا وہ سیدہ حفصہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا ہیں، بیان کرتی ہیں کہ ان سے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی قراء ت کے بارے میں سوال کیا گیا، انھوں نے کہا: تم تو اس کی استطاعت ہی نہیں رکھتے۔ کسی نے ان سے کہا: آپ ہمیں بتلا تو دیں۔ جوابا ً انہوں نے قراء ت کی اور اس میں ٹھہر ٹھہر کر پڑھا۔ابن ابی ملیکہ نے اس کو یوں بیان کیا: {اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ} پڑھا، پھر ٹھہر گئے، پھر {اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ} پڑھا اور اس پر وقف کیا، پھر {مَالِکِ یَوْمِ الدَّیِْن} پڑھا۔
Haidth Number: 1652
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۶۵۲) تخریج: رجالہ ثقات رجال الشیخین (انظر: ۲۶۴۷۰)

Wazahat

فوائد:… یہ حدیث مختلف طرق سے روایت کی گئی ہے، دو سندیں اور ان کے متون درج ذیل ہیں، غور فرمائیں: ابن ابی ملیکہ کہتے ہیں: ایک زوجۂ رسول، غالباً وہ سیدہ حفصہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا ہیں، سے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی قراء ت کے بارے میں سوال کیا گیا، انھوں نے کہا: تمہارے پاس اتنی طاقت ہی نہیںہے کہ وہ قراء ت کر سکو، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ٹھہر ٹھہر کر پڑھتے تھے: {اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔اَلرَّحْمَنِ الرَّحِیْمِ} (صحیح لغیرہ، مسند احمد: ۲۶۴۵۱) ابن ابی ملیکہ سے مروی ہے کہ سیدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی قراء ت کے بارے میں سوال کیا گیا، انھوں نے کہا: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہر آیت پر ٹھہر ٹھہر کر تلاوت کرتے تھے: {بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مَالِکِ یَوْمِ الدَّیِْن}۔ (صحیح لغیرہ، مسند احمد: ۲۶۵۸۳، ابوداود: ۴۰۰۱، ترمذی: ۲۹۲۷) خلاصۂ کلام یہ ہے کہ قرآن مجید کی تلاوت کے دوران ہر آیت پر وقف بھی کیا جائے اور ٹھہراؤ کا بھی خیال رکھا جائے۔ وائے مصیبت! کہ اکثر مسلمان تلاوت ِ قرآن کے سلسلے میں مقدار کی طرف توجہ کرتے ہیں، معیار کو نہیں دیکھتے، بالخصوص تراویح اور رمضان میں۔ ان کا ذہن یہ ہوتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ پاروں کی تلاوت کرکے جلدی جلدی قرآن مجید ختم کیا جائے۔ ایسے لوگوں سے گزارش ہے کہ سب سے پہلے اپنے عمل میں معیار کے مطابق حسن پیدا کریں، ترتیل کے ساتھ تلاوت کریں اور ہر ایک آیت پر وقف کریں، اگر زیادہ مقدار چاہتے ہیں تو زیادہ وقت دیں۔