Blog
Books
Search Hadith

قراء ت کے سری اورجہری ہونے کا اور ترتیل وغیرہ کا بیان

۔ (۱۶۵۵) عَنْ حُذَیْفَۃَ بْنِ الْیَمَانِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَانَ إِذَا مَرَّ بِآیَۃِ رَحْمَۃٍ سَأَلَ وَإِذَا مَرَّ بِآیَۃٍ فِیْہَا عَذَابٌ تَعَوَّذَ، وَإِذَا مَرَّبِآیَۃٍ فِیْہَا تَنْزِیْہُ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ سَبَّحَ۔ (مسند احمد: ۲۳۶۵۰)

سیدناحذیفہ بن یمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب رحمت والی آیت کے پاس سے گزرتے تو سوال کرتے، جب ایسی آیت سے گزرتے جس میں عذاب کا ذکر ہوتا تو پناہ مانگتے اور جب ایسی آیت تلاوت کرتے، جس میں اللہ تعالیٰ کی تنزیہ بیان کی جاتی تو اس کی تسبیح بیان کرتے۔
Haidth Number: 1655
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۶۵۵) تخریج: أخرجہ مسلم: ۷۷۲ (انظر: ۲۳۲۶۱)

Wazahat

فوائد:… سوال کرنے، پناہ مانگنے اور تسبیح بیان کرنے کے لیے کوئی الفاظ بھی کہے جا سکتے ہیں تنزیہ اور تسبیح ہم معنی الفاظ ہیں، ان کا معنی ہے: اللہ تعالیٰ کو ہر قسم کے عیب اور نقص سے پاک قرار دینا، جیسے {سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلٰی} پڑھ کر سُبْحَانَ اللّٰہ کہنا۔ اس حدیث سے سبق حاصل کر کے ان لوگوں کو اپنے کردار کا جائزہ لینا چاہیے، جن کو قرآن مجید کے مفہوم کا ذرا برابر علم نہیں ہوتا اور ان کو کوئی شعور نہیں ہوتا کہ وہ کیا پڑھ رہے ہیں۔ امام اور منفرد کو تو ان موضوعات سے متعلقہ آیات کی تلاوت کر کے ان کا جواب دینا چاہیے، مقتدی کے بارے میں اختلاف ہے، ہماری رائے یہ ہے کہ مقتدی خاموش رہے، کیونکہ مقتدی کو امام کی اقتدا میں جہری قراء ت کے دوران خاموش رہنے کا حکم دیا گیا، وہ کسی مخصوص دلیل کی روشنی میں ہی بول سکتا ہے، مثلا: سورۂ فاتحہ کی تلاوت کرنا، آمین کہنا، امام کو لقمہ دینا۔ البتہ سرّی نماز میں جب مقتدی خود قراء ت کر رہا ہو تو وہ ایسی آیتوں کی تلاوت کی صورت میں ان کے تقاضے کے مطابق جوابی کلمات کہے گا۔ واللہ اعلم بالصواب