Blog
Books
Search Hadith

جلسہ استراحت کا بیان

۔ (۱۷۵۵) (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیقٍ ثَانٍ) بِنَحْوِہِ وَفِیْہِ قَالَ أَبُو قِلاَبَۃَ فَصَلّٰی صَلاَۃً کَصَلاَۃِ شَیْخِنَا ھٰذَا یَعْنِیْ عَمْرَو بْنَ سَلِمَۃَ الْجَرْمِیَّ، وَکَانَ یَؤُمُّ عَلٰی عَھْدِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، قَالَ أَیُّوْبُ فَرَأَیْتُ عَمْرَو بْنَ سَلِمَۃَیَصْنَعُ شَیْئًا لاَ أَرَاکُمْ تَصْنَعُونَہُ، کَانَ إِذَا رَفَعَ مِنَ السَّجْدَتَیْنِ اسْتَوٰی قَاعِدًا ثُمَّ قَامَ مِنَ الرَّکْعَۃِ الْأُولٰی وَالثَّالِثَۃِ۔ (مسند احمد: ۲۰۸۱۳)

۔ (دوسری سند)اسی طرح کی حدیث مروی ہے، البتہ اس میں یہ بھی ہے: ابو قلابہ نے کہتے ہیں: پس انہوں نے ہمارے اس شیخ سیدنا عمرو بن سلمہ جرمی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، جو عہدِ نبوی میں امامت کرواتے تھے، کی نماز کی طرح نماز پڑھی۔ ایوب کہتے ہیں: میںنے عمر وبن سلمہ کو ایسا کام کرتے ہوئے دیکھا جو تم لوگوں کو کرتے ہوئے نہیں دیکھتا، جب وہ دو سجدوں سے اٹھتے تو بیٹھ کر برا بر ہو جاتے پھر پہلی اور تیسری رکعت سے کھڑے ہوتے۔
Haidth Number: 1755
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۷۵۵) تخریج: أخرجہ البخاری: ۸۰۲، ۸۱۸، وانظر الحدیث بالطریق الاول (انظر: ۲۰۵۳۹)

Wazahat

فوائد:… پہلی سند والی روایت کے صحیح بخاری مین یہ الفاظ ہیں: سیدنا مالک بن حویرث ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنی نماز کی طاق رکعات میں ہوتے تو اس وقت تک کھڑے نہ ہوتے، جب تک برابر ہو کر بیٹھ نہ جاتے۔ (صحیح بخاری: ۸۲۳) فوائد:… جلسۂ استراحت مسنون عمل ہے، ایک دلیل کا ذکر اوپر ہو چکا ہے، مزید دو دلائل درج ذیل ہیں: (۱)سیدنا ابو حمید ساعدی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی حدیث، جس کے مطابق انھوں نے دس صحابہ میں نماز پڑھی تھی، میں ہے: ثُمَّ یَسْجُدُ ثُمَّ یَقُوْلُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ وَیَرْفَعُ وَیُثْنِیْ رِجْلَہُ الْیُسْرٰی فَیَقْعُدُ عَلَیْھَا ثُمَّ یَعْتَدِلُ حَتّٰییَرْجِعَ کُلُّ عَظْمٍ اِلٰی مَوْضِعِہٖ ثُمَّ یَنْھَضُ۔ یعنی: پھر انھوں نے (دوسرا) سجدہ کیا، پھر اللہ اکبر کہتے ہوئے اس سے اٹھے اور اپنے دائیں پاؤں کو مروڑ کر اعتدال کے ساتھ بیٹھ گئے، حتی کہ ہر ہڈی اپنی جگہ پر لوٹ آئی، پھر کھڑے ہوئے۔ (ابوداود، دارمی، وروی الترمذی وابن ماجہ معناہ) (۲)سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی حدیث ہے، جس میں صلوۃ التسبیح کا بیان ہے، اس کے مطابق اس نماز والا کلمہ آخری بار دس دفعہ اسی جلسۂ استراحت میں ہی پڑھا جاتا ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس مقام میں جلسہ کیا جاتا ہے۔ جلسۂ استراحت کی نفی کے دلائل اور ان کی حقیقت: (۱)سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: کَانَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَنْھَضُ فِیْ الصَّلَاۃِ عَلٰی صُدُوْرِ قَدَمَیْہِ۔ یعنی: نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نماز میں سیدھے قدموں پرہی کھڑے ہو جاتے تھے۔ لیکنیہ حدیث ضعیف ہے، اس میں خالد بن ایاس متروک الحدیث ہے اور صالح مولی التؤمہ کو آخر میں اختلاط ہو گیا تھا۔ چونکہ احناف اس جلسہ کو تسلیم نہیں کرتے، اس لیے جناب طحاوی حنفی نے کہا: یہ احتمال ہے کہ سیدنا مالک بن حویرث ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی اس حدیث میں جس جلسۂ استراحت کا بیان ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کسی بیماری کی وجہ سے کیا ہو، نہ کہ نماز کی سنت ہونے کی وجہ سے، اگر یہ مشروع ہوتا تو اس کے لیے کوئی مخصوص ذکر ہوتا۔ بڑی حیران کن بات ہے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی نماز کو نقل کرنے والے صحابی سیدنامالک بن حویرث ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اس جلسہ کو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا طریقہ اور سنت سمجھ کر اور اس پر عمل کرتے ہوئے آگے بیان کر رہے ہیں، لیکن بعد والے اذہان اپنی مخصوص ذہنیت کی وجہ سے مختلف احتمالات کا اظہار کر کے اس کو ردّ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، اب فقہ حنفی کا وہ قانون کہاں گیا کہ راوی کی رائے کو معتبر سمجھا جائے نہ کہ اس کی روایت کو۔ رہا مسئلہ مخصوص ذکر کا، تو یہ بتانا شارع کا حق ہے کہ کس مقام پر کون ساذکر کرنا ہے اور کس مقام پر نہیں کرنا،یہ ہمارے اپنے دماغ کی اختراع ہے کہ ہر بیٹھک کے لیے ذکر ضروری ہوتا ہے، پھر اس اختراع کی روشنی میں سنت کو ردّ کرنا شروع کردیا۔ اصل قانون یہ ہے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی ہر سنت اصل الاصول اور قابلِ عمل ہوتی ہے، کسی بیمارییا علت کو وجہ قرار دینے کے لیے واضح دلیل کی ضرورت ہے۔