Blog
Books
Search Hadith

امانت اور ایمان کے اٹھ جانے کا بیان

۔ (۱۷۶)۔عَنْ حُذَیْفَۃَ بْنِ الْیَمَانِ ؓ قَالَ: حَدَّثَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَدِیْثَیْنِ قَدْ رَأَیْتُ أَحَدَہُمَا وَ أَنَا أَنْتَظِرُ الْآخَرَ، حَدَّثَنَا أَنَّ الْأَمَانَۃَ نَزَلَتْ فِی جَذْرِ قُلُوْبِ الرِّجَالِ ثُمَّ نَزَلَ الْقُرْآنُ فَعَلِمُوْا مِنَ الْقُرْآنِ وَ عَلِمُوْا مِنَ السُّنَّۃِ،ثُمَّ حَدَّثَنَا عَنْ رَفْعِ الْأَمَانَۃِ فَقَالَ: ((یَنَامُ الرَّجُلُ النَّوْمَۃَ فَتُقْبَضُ الْأَمَانَۃُ مِنْ قَلْبِہِ فَیَظَلُّ أَثَرُہَا مِثْلَ أَثَرِ الْوَکْتِ فَتُقْبَضُ الْأَمَانَۃُ مِنْ قَلْبِہِ فَیَظَلُّ أَثَرُہَا مِثْلَ أَثَرِ الْمَجْلِ کَجَمْرٍ دَحْرَجْتَہُ عَلٰی رِجْلِکَ فَتَرَاہُ مُنْتَبِرًا وَلَیْسَ فِیْہِ شَیْئٌ۔)) قَالَ: ثُمَّ أَخَذَ حَصًا فَدَحْرَجَہُ عَلٰی رِجْلِہِ قَالَ: ((فَیُصْبِحُ النَّاسُ یَتَبَایَعُوْنَ لَا یَکَادُ أَحَدٌ یُؤَدِّی الْأَمَانَۃَ حَتَّی یُقَالَ: اِنَّ فِیْ بَنِیْ فُـلَانٍ رَجُلًا أَمِیْنًا حَتّٰی یُقَالَ لِلرَّجُلِ:مَا أَجْلَدَہُ وَ أَظْرَفَہُ وَ أَعْقَلَہُ وَمَا فِیْ قَلْبِہِ حَبَّۃٌ مِنْ خَرْدَلٍ مِنْ اِیْمَانٍ۔)) وَلَقَدْ أَتٰی عَلَیَّ زَمَانٌ وَمَا أُبَالِیْ أَیَّکُمْ بَایَعْتُ، لَئِنْ کَانَ مُسْلِمًا لَیَرُدَّنَّہُ عَلَیَّ دِیْنُہُ وَلَئِنْ کَانَ نَصْرَانِیًّا أَوْ یَہُوْدِیًّا لَیَرُدَّنَّہُ عَلَیَّ سَاعِیْہِ، فَأَمَّا الْیَوْمَ فَمَا کُنْتُ لِأُبَایِعَ مِنْکُمْ اِلَّا فُلَانًاوَ فُلَانًا۔ (مسند أحمد: ۲۳۶۴۴)

سیدنا حذیفہ بن یمانؓ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے ہمیں دو حدیثیں بیان کی، میں نے ایک کا مصداق تو دیکھ لیا ہے اور دوسرے کا انتظار کر رہا ہوں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے ہمیں بیان کیا تھا کہ امانت لوگوں کے دلوں کی اصل میں داخل ہوئی، پھر قرآن نازل ہوا، لوگوں نے قرآن مجید اور سنت کی تعلیم حاصل کی، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے ہمیں اس امانت کے اٹھ جانے کے بارے میں بتلاتے ہوئے فرمایا: آدمی سوئے گا اور اس کے دل سے یہ امانت کھینچ لی جائے گی اور ہلکے سے نشان اور دھبّے کی طرح اس کا اثر باقی رہ جائے گا، پھر جب اس کے دل سے رہی سہی امانت کو اٹھا لیا جائے گا تو چھالے اور آبلے کی طرح اس کا اثر باقی رہ جائے گا، بالکل ایسے ہی جیسے تو انگارے کو اپنے پاؤں پر لڑھکائے اور پھر تو اس کے نتیجے میں ورم کے نشان دیکھے، جب کہ اس میں کوئی چیز بھی نہیں ہوتی۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے وضاحت کرنے کے لیے ایک کنکری کو اپنے پاؤں پر لڑھکایا، پھر فرمایا: پھر لوگ خریدو فروخت تو کریںگے، لیکن کوئی ایک بھی ایسا نہیں ہو گا، جوامانت ادا کرے گا، حتی کہ لوگ کہیں گے: بنو فلاں میں ایک امانت دار آدمی ہے، (لیکن یہ شہادت بھی اس طرح کی ہو گی کہ) لوگ ایک آدمی کی تعریف کرتے ہوئے کہیں گے: وہ کس قدر باہمت و با استقلال ہے، وہ کیسا زیرک اور خوش اسلوب آدمی ہے، وہ کتنا عقل مند شخص ہے، جبکہ اس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر ایمان نہیں ہو گا۔ پھر سیدنا حذیفہؓ نے کہا: ایک زمانہ ایسا تھا کہ مجھے کوئی پرواہ نہیں ہوتی تھی کہ میں کس سے سودا کر رہا ہوں، اگر وہ مسلمان ہوتا تو اس کا دین اس کو میری امانت لوٹانے پر مجبور کرتا اور اگر وہ عیسائی یا یہودی ہوتا تو اس سے جزیہ وصول کرنے والا میرا حق لوٹا دیتا تھا، لیکن یہ زمانہ، تو اس میں میں صرف اور صرف فلاں فلاں آدمی سے لین دین کروں گا۔
Haidth Number: 176
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۷۶) تخریج: أخرجہ البخاری: ۶۴۹۷، ۷۰۸۶، ۷۲۷۶، ومسلم: ۱۴۳ وروایۃ البخاری مختصرۃ (انظر: ۲۳۲۵۵)

Wazahat

فوائد: …یقین مانیں کہ اس وقت بازاروں میں عدم اعتمادی کی یہی صورتحال ہے، جن لوگوں نے دوکانیں اور مکانات کرائے پر دے رکھے ہیں، ان کو یہی خطرہ رہتا ہے کہ کرایہ دار قبضہ نہ کر لے، کوئی کسی کو اس وجہ سے ادھار دینے کے لیے تیار نہیں ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ کل کلاں انکاری ہو جائے۔ نیز ایسے ایسے لوگوں کو امانتدار، غیر جانبدار اور انصاف پسندکہا جا رہا ہے، جو بیچارے اسلامی شعائر اور ارکان سے محروم ہوتے ہیں۔