Blog
Books
Search Hadith

اس کے الفاظ کے بارے میں ثابت ہونے والے مواد کا بیان فَصْلٌ فِیْمَا رُوِیَ فِیْ ذٰلِکِ عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ فصل: سیدناعبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ سے مروی تشہد

۔ (۱۷۷۷) عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُخَیْمِرَۃَ قَالَ: أَخَذَ عَلْقَمَۃُ بِیَدِیْ وَحَدَّثَنِیْ أَنَّ عَبْدَاللّٰہِ بْنَ مَسْعُوْدٍ أَخَذَ بِیَدِہِ وَأَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَخَذَ بِیَدِ عَبْدِاللّٰہِ فَعَلَّمَہُ التَّشَہُّدَ فِی الصَّلاَۃِ، فَقَالَ: ((قُلْ اَلتَّحِیَّاتُ لِلّٰہِ (کَمَا تَقَدَّمَ إِلٰی قَوْلِہِ) وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُوْلُہُ۔ قَالَ: فَإِذَا قَضَیْتَ ھٰذَا أَوْقَالَ فَإِذَا فَعَلْتَ ھٰذَا فَقََدْ قَضَیْتَ صَلَاتَکَ، إِنْ شِئْتَ أَنْ تَقُوْمُ فَقُمْ، وَإِنْ شِئْتَ أَنْ تَقْعُدَ فَاقْعُدْ۔)) (مسند احمد: ۴۰۰۶)

سیدناعبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کاہاتھ پکڑا اور نماز میں (پڑھا جانے والے) تشہد کی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا: کہو: اَلتَّحِیَّاتُ لِلّٰہِ ……أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗوَرَسُوْلُہُ (سابقہحدیث والا تشہد بیان کیا)۔ پھر فرمایا: جب تو یہ پورا کرلے توتونے اپنی نماز پوری کرلی، اگر کھڑا ہونا چاہے توکھڑا ہوجا اور اگر بیٹھنا چاہے تو بیٹھا رہ۔
Haidth Number: 1777
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۷۷۷) تخریج: اسناد صحیح۔ أخرجہ ابوداود: ۹۷۰ (انظر: ۴۰۰۶)

Wazahat

فوائد:… اس حدیث کو السلام علیکم ورحمۃ اللہ کی عدمِ فرضیت پر دلیل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، یعنی نماز سے نکلنے کے لیے سلام کہنا فرض نہیں، بلکہ کوئی خلافِ نماز حرکت کی جا سکتی ہے اور سلام کی فرضیت کے قائل اس حدیث کییوں تاویل کرتے ہیں کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے الفاظ تیری نماز مکمل ہو چکی ہے کا معنییہ ہے کہ تو تکمیلِ نماز کے قریب پہنچ چکا ہے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے الفاظ اگر تو جانا چاہتا ہے تو چلا جا کے معنییہ ہیں کہ نماز سے خارج ہونے کا جو شرعی طریقہ ہے، اس کے ذریعے نماز سے خارج ہو جا۔ ہم آئندہ آنے والے سلام کے ابواب مین یہ واضح کریں گے کہ سلام کے بغیر نماز سے خارج ہونا درست نہیں ہے، رہا مسئلہ اس حدیث کا تو سب سے پہلی گزارش یہ ہے کہ سرے سے اس حدیث ِ مبارکہ کے عَبْدُہٗوَرَسُوْلُہُ کےبعدوالےالفاظکےبارےمیں اختلاف ہے کہ آیا ان کا تعلق نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی حدیث سے ہے یا سیدنا عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے کلام سے۔ میں اس مقام پر صرف علامہ عظیم آبادی کا کلام پیش کرنے پر اکتفا کرتا ہوں، وہ کہتے ہیں: خطابی نے معالم میں کہا کہ اہل علم کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ یہ الفاظ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے قول کا حصہ ہیںیا عبد اللہ بن مسعود کے کلام کا، ……۔ ابو بکر خطیب نے کہا: یہ الفاظ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے کلام کا حصہ نہیں ہیں، بلکہ یہ تو سیدنا ابن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا قول ہے، جو حدیث میں مدرج ہو گیا، شبابہ بن سوار نے زہیر بن معاویہ سے بیان کردہ روایت میں اس کی وضاحت کی ہے اور ابن مسعود کے کلام کو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی حدیث سے الگ کر کے بیان کیا ہے، اسی طرح عبد الرحمن بن ثابت نے بھی حسین بن ابی حسین سے عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے کلام کو علیحدہ کر کے روایت کیا ہے۔ جبکہ ابو الحسن سندھی نے شرح شرح النخبۃ میں کہا: خطابی نے معالم میں اس کے بارے میں جو کچھ کہا، اس سے ان کی مراد یہ ہے کہ اس کے وصل یا فصل کے بارے میں راویوں کا اختلاف ہے، پس بیشک حفاظ تو اس بات پر متفق ہیں کہ یہ مدرج کلام ہے۔ (عون المعبود: ۱/ ۴۸۴) ہمارا نظریہیہ ہے کہ اگر ہم اس جملے کو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی حدیث کا حصہ مان بھی لیں تو اس کو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی دوسری احادیث کی روشنی میں سمجھا جائے گا کہ اس کا معنییہ ہے کہ وہ نمازی تکمیلِ نماز کے قریب پہنچ چکا ہے، اس تاویل کی وجہ یہ ہے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیشہ سلام کے ساتھ نماز کو ختم کیا اور قولی احادیث کے ذریعے بھی اسی کی تعلیم دی، ان کی تفصیل سلام کے باب میں آئے گی۔ درود کے پڑھنے کا مسئلہ بھی آگے بیان ہو گا۔واللہ اعلم بالصواب۔