Blog
Books
Search Hadith

امانت اور ایمان کے اٹھ جانے کا بیان

۔ (۱۷۹)۔ (وَ عَنْہُ أَیْضًا مِنْ طَرِیْقٍ ثَالِثٍ)۔قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اِنَّ رَحَی الْاِسْلَامِ سَتَزُوْلُ بِخَمْسٍ وَ ثَلَاثِیْنَ أَوْ سِتٍّ وَ ثَلَاثِیْنَ أَوْ سَبْعٍ وَ ثَلَاثِیْنَ، فَاِنْ یَہْلِکُوْا فَکَسَبِیْلِ مَنْ ہَلَکَ وَ اِنْ یَقُمْ لَہُمْ دِیْنُہُمْ یَقُمْ لَہُمْ سَبْعِیْنَ عَامًا، قَالَ عُمَرُ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! أَبِمَا مَضَی أَمْ بِمَا بَقِیَ؟ قَالَ: بَلْ بِمَا بَقِیَ۔ (مسند أحمد: ۳۷۰۷)

۔ (تیسری سند)رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌نے فرمایا: پینتیس یا چھتیس یا سینتیس سالوں کے بعد اسلام کی چکی گھومے گی ،اس کے بعد اگر وہ (گمراہ رہ کر) ہلاک ہوئے تو وہ پہلے ہلاک ہونے والوں کی طرح ہوں گے اور اگر دین قائم رہا تو وہ ستر سال تک قائم رہے گا۔ سیدنا عمر ؓ نے کہا: اے اللہ کے رسول! ماضی سمیت یا مستقل ستر سال ؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: مستقل ستر سال۔
Haidth Number: 179
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۷۹) تخریج:انظر الحدیث بالطریق الاول

Wazahat

فوائد: …علامہ عظیم آبادی نے کہا: اسلام کی چکی گھومنا، اس کے مختلف معانی بیان کیے گئے ہیں: (۱) اکثر کا یہ خیال ہے کہ اس سے مراد بغیر کسی نقص کے نبوت کے منہج اور خلافت کا جاری رہنا، خلفاء کے معاملات کا مستقیم رہنا، حدود کو نافذ کرنا اور شرعی احکام کو رواج دینا ہے۔ (۲) اس سے مراد لڑائی اور قتل و غارت گری ہے۔ (عون المعبود: ۱۱/ ۲۲۰) امام البانی ‌رحمتہ ‌اللہ ‌علیہ ‌ رقمطراز ہیں: خطیب ‌رحمتہ ‌اللہ ‌علیہ ‌ نے کہا: تَدُوْرَ رُحٰی اْلِاسْلَامِ ایک ضرب المثل ہے، اس کا مرادی معنی یہ ہے کہ اس مدت کے بعد اسلام میں کوئی عظیم سانحہ رونما ہو گا، جو اہل اسلام کے لیے خطرہ ہو گا۔ جب کسی معاملے میں تغیر پیدا ہوتا ہے یا وہ تبدیل ہوتا ہے تو دَارَتْ رَحَاہ (اس کی چکی گھوم گئی) کہتے ہیں۔ ایسے معلوم ہوتا ہے کہ حدیث کے شروع میں مدتِ خلافت کے ختم ہونے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ واللہ اعلم۔ یَقُمْ لَھُمْ دِیْنُھُمْ کے معانی ہیں: مسلمانوں کی بادشاہت اور سلطنت قائم رہے گی، کیونکہ دین کا اطلاق بادشاہت اور سلطنت پر بھی ہوتا ہے، جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: {مَا کَانَ لِیَاْخُذَ أَخَاہُ فِیْ دِیْنِ الْمَلِکِ} (سورۂ یوسف: ۷۶) … وہ (حضرت یوسف ؑ) اپنے بھائی کو بادشاہ کی بادشاہت کے قانون کے مطابق نہیں رکھ سکتے تھے۔ سیدنا حسن بن علی ؓ کی سیدنا معاویہ ؓ کی بیعت کرنے سے لے کر مشرق سے بنو امیہ کی بادشاہت ختم ہونے تک تقریبا ستر سال بنتے ہیں۔ امام طحاوی نے کہا: شک کی بنا پر نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کی مشیت کی بنا پر پینتیس یا چھتیس یا سینتیس کہا گیا، جو پینتیس برس کی صورت میں ظاہر ہوا،اس عرصے کے بعد (اہل مصر) نے سیدنا عثمان ؓ کا محاصرہ کر لیا، حتی کہ ان کو شہید کر دیا گیا۔ ان کی شہادت امت میں اختلاف و افتراق کا سبب ٹھہری، اس کے بعد اگر کوئی ہلاک ہوا تو وہ پہلے ہلاک ہونے والوں کی طرح ہو گا، بہرحال اللہ تعالیٰ نے پردہ رکھا اور اس کی تلافی کرتے ہوئے اس امت میں ایسے افراد کو قائم رکھا، جنھوں نے دین کی حفاظت کی۔ (صحیحہ: ۹۷۶) ملا علی قاری ‌رحمتہ ‌اللہ ‌علیہ ‌ نے کہا: زمانۂ ہجرتِ نبوی سے لے کر خلفائے ثلاثہ (سیدنا ابوبکر، سیدنا عمر اور سیدنا عثمان ) کی خلافت کی انتہا تک پینتیس سال بنتے ہیں، اس میں عوام و خواص کا کوئی اختلاف نہیں ہے، اس عرصے کے بعد سیدنا عثمان ؓ کو قتل کر دیا گیا، پھر چھتیسویں سال کو جنگ ِ جمل کا اور سینتیسویں سال کو جنگ ِ صفین کا واقعہ پیش آیا … خطابی نے کہا: چکی گھومنے سے مراد جنگ و جدل اور قتل و غارت گری ہے، تشبیہ کی وجہ یہ ہے کہ جس طرح چکی دانے کو پیستی ہے، اس طرح اس عرصے کے بعد لوگوں کی جانیں ہلاک ہونا شروع ہو جائیںگی، … آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ اپنے صحابہ کو یہ خبر دینا چاہتے ہیں کہ وہ پینتیس یا چھتیس یا سینتیس تک (آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے دور کی طرح) دین پر قائم رہیں گے، پھر اختلاف کی وجہ سے افتراق و انتشار پڑ جائے گا، اس کے بعد اگر کوئی ہلاک ہوا تو وہ پہلے ہلاک ہونے والوں کی طرح ہو گا۔ لیکن اگر مسلمانوں کا معاملہ پھر سے ایک امیر کی اطاعت اور حق کی تائید کی طرف لوٹ آیا تو وہ ستر سال تک جاری رہے گا۔ (مرقاۃ المفاتیح: ۹/ ۲۹۰۔ ۲۹۲)