Blog
Books
Search Hadith

نمازوں کے بعد تسبیح، تحمید، تکبیر اوراستغفار کا بیان

۔ (۱۸۶۵) عَنْ عَلِیٍّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ وَقَدْ جَائَ إِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ھُوَ وَفَاطِمَۃُ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا یَطْلُبَانِ خَادِمًا مِنَ السَّبْیِیُخَفِّفُ عَنْہُمَا بَعْضَ الْعَمَلِ فَأَبٰی عَلَیْہِمَا ذٰلِکَ فَذَکَرَ قِصَّۃً قَالَ: ثُمَّ قَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَھُمَا: ((أَلاَ أُخْبِرُکُمَا بِخَیْرٍ مِمَّا سَأَلْتُمَانِیْ؟)) قَالَا: بَلٰی۔ فَقَالَ: ((کَلِمَاتٌ عَلَّمَنِیْہِنَّ جِبْرِیْلُ عَلَیْہِ السَّلاَمُ، فَقَالَ تُسَبِّحَانِ فِیْ دُبُرِ کُلِّ صَلاَۃٍ عَشْرًا، وَتَحْمَدَانِ عَشْرًا، وَتُکَبِّرَانِ عَشْرًا، وَإِذَا أَوَیْتُمَا إِلٰی فِرَاشِکُمَا فَسَبِّحَا ثَلاَثًا وَثَلاَثِیْنَ، وَاحْمَدَ ا ثَلاَثًا وَثَلاَثِیْنَ، وَکَبِّرَا أَرْبَعًا وَثَلاَ ثِیْنَ۔)) قَالَ: فَوَ اللّٰہِ مَا تَرَ کْتُہُنَّ مُنْدُ عَلَّمَنِیْہِنّ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ۔ قَالَ: فَقَالَ لَہُ ابْنُ الْکَوَّائِ: وَلاَ لَیْلَۃَصِفِّیْنَ؟ فَقَالَ: قَاتَلَکُمُ اللّٰہُ یَا أَھْلَ الْعِرَاقِ، نَعَمْ وَلاَ لَیْلَۃَ صِفِّیْنَ۔ (مسند احمد: ۸۳۸)

سیدناعلی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ وہ اور سیدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا قیدیوں میں سے ایک خادم کا سوال کرنے کے لیے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آئے، تاکہ بعض کام وہ کر دے اور اس طرح ان پر ذرا تخفیف ہو جائے۔ لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو خادم دینے سے انکار کر دیا، … سارا قصہ ذکر کیا …۔ پھر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان دونوں سے فرمایا: کیا میں تمہیں ایسی چیز کی خبر نہ دے دوں جو اس چیز سے بہتر ہے، جس کا تم نے سوال کیا ہے؟ انھوں نے کہا: کیوں نہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: چند کلمات ہیں، جبریل علیہ السلام نے مجھے ان کی تعلیم دی ہے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم ہر نماز کے بعد دس مرتبہ سُبْحَانَ اللّٰہِ، دس مرتبہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ اور دس مرتبہ اَللّٰہُ اَکْبَرُ کہو، پھر جب تم اپنے بستر پر آؤ تو تینتیس مرتبہ سُبْحَانَ اللّٰہ، تینتیس مرتبہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ اور چونتیس مرتبہ اَللّٰہُ اَکْبَرُ کہو۔ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! جب سے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے یہ کلمات سکھائے، تب سے میں نے ان کو ترک نہیں کیا۔ ابن کوا نے کہا: کیا صفین والی رات بھی نہیں چھوڑے تھے ؟ انہوں نے کہا: اے اہل عراق! تمہیں اللہ تباہ کرے، ہاں ہاں میں نے صفین والی رات کو بھی ان کو ترک نہیں کیا تھا۔
Haidth Number: 1865
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۸۶۵) تخریج: اسنادہ حسن۔ أخرجہ ابن ماجہ: ۴۱۵۲، وابن ابی شیبۃ: ۱۰/ ۲۳۲ (انظر: ۸۳۸)

Wazahat

فوائد:… قصہ سے مراد سیدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کی شکایات کی تفصیل ہے، نیز اس میں اس سازو سامان کا بھی ذکر ہے، جو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدہ کو ان کی شادی کے موقع پر دیا تھا۔ صفین والی رات سے مراد وہ لڑائی ہے جو سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی شہادت کی وجہ سے سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور اہل شام کے درمیان لڑی گئی تھی، ویسے فرات کے قریب ایک جگہ کا نام صفین ہے، جس مین یہ جنگ ہوئی تھی۔