Blog
Books
Search Hadith

نماز سے فارغ ہونے کے بعد بآواز بلند ذکر کرنے کا بیان

۔ (۱۸۸۳) حَدَّثَنَا عَبْدُاللّٰہِ حَدَّثَنِیْ أَبِیْ ثَنَا سُفْیَانُ عَنْ عَمْرٍو عَنْ أَبِیْ مَعْبَدٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ مَاکُنْتُ أَعْرِفُ انْقِضَائَ صَلاَۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِلاَّ بِالتَّکْبِیْرِ، قَالَ عَمرٌو قُلْتُ لَہُ حَدَّثْتَنِی؟ قَالَ لاَ، مَا حَدَّ ثْتُکَ بِہِ۔ (مسند احمد: ۱۹۳۳)

سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی نماز کا ختم ہونا تکبیر کے ساتھ ہی پہچانتا تھا۔ عمرو کہتے ہیں: میںنے (ابو معبد) سے کہا: تو نے مجھے یہ حدیث بیان کی ہے؟ اس نے کہا: نہیں، میں نے تجھے یہ بیان نہیں کی۔
Haidth Number: 1883
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۸۸۳) تخریج: أخرجہ البخاری: ۸۴۱، ومسلم: ۵۸۳ (انظر: ۱۹۳۳)

Wazahat

فوائد:… یہ دونوں احادیث، ایک حدیث ہی ہیں،یہ احتمال قوی معلوم ہوتا ہے کہ پہلی حدیث کے عموم کو دوسری حدیث کے خصوص کی روشنی میں سمجھا جائے، یعنی مسئلہ یہ ثابت ہوا کہ صرف اللہ اکبر کے ساتھ آواز بلند ہونی چاہیے۔ بعض جن احادیث سے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا کچھ دوسری دعاؤں کو جہری آواز کے ساتھ پڑھنا بھی ثابت ہے، ان سے مراد لوگوں کو تعلیم دینا ہے۔ عمرو کی اپنے استاد ابومعبد سے بات کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ابو معبد نے عمرو سے حدیث تو بیان کی ہے لیکن وہ حدیث بیان کر کے بھول گئے۔ اس لیے انہوں نے اپنے شاگرد عمرو کے پوچھنے پر اس کا انکار کیا۔ استاد حدیث بیان کر کے اگر بھول جائے تو صحیح ترین رائے کے مطابق اگر شاگرد ثقہ ہو تو اس کی روایت قابل حجت ہو گی۔ اس کی تفصیلات کے لیے اصول حدیث میں مَنْ حَدَّثَ وَ نَسِیَ والی بحث دیکھیں۔ (مزید: مسند امام احمد محقق: ۳/۴۰۷) (عبداللہ رفیق)