Blog
Books
Search Hadith

نماز میں گونگی بکل، سدل، اسبال، نقش و نگار والے کپڑوں اور عورتوں کی چادروں کی کراہت کا بیان

۔ (۱۹۲۷) عَنْ أَبِیْ سَعِیْدٍ الْخُدْرِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: نَہٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَنْ لِبْسَتَیْنِ وَعَنْ بَیْعَتَیْنِ، أَمَّا الْبَیْعَتَانِ الْمُلاَمَسَۃُ وَالْمُنَابَذَۃُ، وَاللِّبْسَتَانِ اشْتِمَالُ الصَّمَّائِ وَالْاِحْتِبَائُ فِیْ ثَوْبٍ وَّاحِدٍ لَیْسَ عَلٰی فَرْجِہِ مِنْہُ شَیْئٌ۔ (مسند احمد: ۱۱۰۳۶)

سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دوقسم کے لباسوں اور دو قسم کے سودوں سے منع کیا، دو سودے ملامسہ اور منابذہ ہیں اور دو لباس یہ ہیں: گونگی بکل اور ایک کپڑے میں اس طرح گوٹھ مارنا کہ اس کی شرمگاہ پر کوئی کپڑا نہ ہو۔
Haidth Number: 1927
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۹۲۷) تخریج: أخرجہ البخاری: ۶۲۸۴ (انظر: ۱۱۰۲۲)

Wazahat

فوائد:… اِشْتِمَالُ الصَّمَّائ سے کیا مراد ہے؟ حافظ ابن حجر نے کہا: اہلِ لغت کہتے ہیں: کسی شخص کا ایک کپڑے کو اپنے جسم پر اس طرح لپیٹنا کہ نہ تو وہ اس سے کسی جانب کو بلند کرتا ہو اور نہ ہی اتنی جگہ باقی ہو کہ اس کا ہاتھ نکل سکے۔ ابن قتیبہ نے کہا: صمّائ کی وجہ تسمیہیہ ہے کہ اس کی صورت تمام سوراخوں کو بند کر دیتی ہے، اس طرح وہ سخت چٹان کی طرح ہو جاتی ہے، جس میں کوئی سوراخ نہیں ہوتا۔ جبکہ فقہا نے کہا: آدمی اپنے جسم پر کپڑا لپیٹے اور پھر اس کا ایک کنارہ اٹھا کر کندھے پر رکھ دے اور اس طرح اس کی شرم گاہ ننگی ہونے لگے۔ (فتح الباری: ۱/ ۶۲۹) سنن ابی داود (۴۰۸۰) کی روایت سے اس معنی کی تائید ہوتی ہے، اس میں ہے: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے لباس کی دو قسموں سے منع کیا ہے: آدمی کا اس طرح گوٹھ مارنا کہ اوپر سے اس کی شرمگاہ ننگی ہو رہی ہو اور اس طرح کپڑا پہننا کہ ایک جانب ننگی رہ جائے اور کپڑا کندھے پر ڈال دے۔ اگرچہ اس حدیث کے ایک راوی سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی تعریف، فقہا کی تعریف سے ملتی جلتی ہے، لیکن علامہ عظیم آبادی کہتے ہیں: لفظ صَمّائ کو سامنے رکھا جائے تو اس معنی کی گنجائش نہیں ملتی، اصمعی کا بیان کردہ معنی اس لفظ کے زیادہ قریب ہے، وہ کہتے ہیں: آدمی کا ایک کپڑے سے اپنا سارا جسم اس طرح ڈھانپ لینا کہ ہاتھ نکالنے کے لیے بھی کوئی سوراخ نہ بچے اور اس طرح وہ اپنے ہاتھوں سے موذی چیزوں سے دفاع نہ کر سکے۔ (عون المعبود: ۱/ ۱۱۲۲) حبوہ (گوٹھ مارنا): سرین کے بل بیٹھ کر گھٹنے کھڑے کر کے ان کے گرد سہارا لینے کے لیے دونوں ہاتھ باندھ لینایا کمر اور گھٹنوں کے گردکپڑا باندھنا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خود اس انداز میں بیٹھ جایاکرتے تھے، اس لیے ایسے انداز میں بیٹھنا جائز ہے، بشرطیکہ بیٹھنے والا ننگا نہ ہو رہا ہو، جیسا کہ اس حدیث سے بھی معلوم ہو رہا ہے۔ حافظ ابن حجر (فتح الباری: ۱/۴۷۷ میں) فرماتے ہیں کہ کتاب اللباس میں ابو سعید خدری سے مروییونس کی روایت کے ظاہر سے معلوم ہوتا ہے کہ حدیث میں مذکور (اشتمال صماء کی) وضاحت مرفوع ہے اور فقہاء کے قول کے مطابق ہے اگر اسے صحابی کا قول سمجھا جائے تو پھر بھی وہ صحیح رائے کے مطابق حجت ہے کیونکہیہ راوی کی وضاحت حدیث کے خلاف نہیں، علامہ عظیم آبادی ‌رحمتہ ‌اللہ ‌علیہ ‌ حافظ ابن حجر کی مذکورہ عبارت نقل کر کے فرماتے ہیں کہ ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی حدیث (بخاری: ۵۸۲۱) میں مذکور (اشتمال صماء کی) وضاحت یقینا مرفوع ہے اور یہیونس کے واسطہ سے مروی ابو سعیدکی حدیث کے مطابق ہے اور یہی بات قابل اعتماد ہے۔ اس مذکورہ بحث سے معلوم ہوا کہ اشتمال صماء کی وضاحت حدیث کا حصہ ہے یا پھر حدیث کے مطابق اور وہ (ابوہریرہ سے مروی) حدیث ابو داود (۴۰۸۰) میں بھی موجود ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ اشتمال صماء کی فقہاء والی تشریح بھی علامہ عظیم آبادی کے نزدیک درست ہے ۔ فوائد کے تحت علامہ عظیم آبادی کے حوالہ سے بات محل نظر ہے۔ (عبداللہ رفیق) (دیکھیں عون المعبود: ۴/۹۷) ملامسہ اور مبابذہ کی تفصیل کتاب البیوع میں آئے گی۔