Blog
Books
Search Hadith

حضرت آدم ؑاور حضرت موسیٰ ؑکا جھگڑا

۔ (۱۹۲) (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ): بِنَحْوِہِ وَفِیْہِ زَیَادَۃُ: ((تَعَرَّفْ اِلَی اللّٰہِ فِی الرَّخَائِ یَعْرِفْکَ فِی الشِّدَّۃِ (وَفِیْہِ أَیْضًا) فَلَوْ أَنَّ الْخَلْقَ کُلَّہُمْ جَمِیْعًا أَرَادُوْا أَنْ یَنْفَعُوْکَ بِشَیْئٍ لَمْ یَکْتُبْہُ اللّٰہُ عَلَیْکَ لَمْ یَقْدِرُوْا عَلَیْہِ، وَاِنْ أَرَادُوْا أَنْ یَضُرُّوْکَ بِشَیْئٍ لَمْ یَکْتُبْہُ اللّٰہُ عَلَیْکَ لَمْ یَقْدِرُوْا عَلَیْہِ، وَاعْلَمْ أَنَّ فِی الصَّبْرِ عَلٰی مَا تَکْرَہُ خَیْرًا کَثِیْرًا وَ أَنَّ النَّصْرَ مَعَ الصَّبْرِ وَ أَنَّ الْفَرْجَ مَعَ الْکَرْبِ وَأَنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا۔)) (مسند أحمد: ۲۸۰۳)

سیدنا ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: آدمؑ اور موسیؑ کا جھگڑا ہونے لگا، موسیؑ نے کہا: اے آدم! تم ہمارے باپ ہو ، تم نے ہمیں ناکام کیا اور جنت سے نکال دیا، ایک روایت میں ہے: تم وہ آدم ہو کہ جس کو اس کی غلطی نے جنت سے نکال دیا؟ آدمؑ نے کہا: اے موسی! تم وہی ہو جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام اور اپنی رسالت کے ساتھ منتخب فرمایا اور تمہارے لیے اپنے ہاتھ سے تورات لکھی، اب کیا تم مجھے ایسی چیز پر ملامت کرتے ہو، جو اللہ تعالیٰ نے میری تخلیق سے چالیس برس پہلے میرے حق میں لکھ دی تھی۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: اس طرح آدمؑ، موسیؑ پر غالب آ گئے، آدمؑ، موسیٰؑ پر غالب آ گئے۔
Haidth Number: 193
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۹۳) تخریج: أخرجہ البخاری: ۶۶۱۴، ومسلم: ۲۶۵۲ (انظر: ۳۷۸۷)

Wazahat

فوائد:… یہاں چند گزارشات کو بیان کرنا ضروری ہے: کسی آدمی کو تقدیر کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اور لوگوں کے ہاں معذور نہیں سمجھا جائے گا، اللہ تعالیٰ کے ہاں مؤاخذہ کرنے کے اور معاف کرنے کے قوانین الگ ہیں اور لوگوں میں کون ہے کہ جس کو تھپڑ لگے یا اس کا کوئی اور نقصان ہو جائے اور وہ اس بنا پر معاف کر دے کہ چلو یہ تھپڑ میری تقدیر میں لکھا ہوا تھا۔ اگر کسی سے کوئی برائی ہو جائے اور پھر اس برائی کی وجہ سے اس کا نقصان بھی ہو جائے تو ایسے شخص کو اس کی برائی کی بنا پر طعنہ مارنا اور اس کی مذمت کرنا شرعا درست نہیں ہے، بالخصوص اس وقت کہ جب وہ توبہ تائب بھی ہو چکا ہو۔ آدمؑ نے موسیؑ کو جو جواب دیا، وہ جواب الزامی تھا، بہرحال ان دونوں انبیاء کی بحث توعالم برزخ میں ہو رہی تھی، جو سرے سے تکلیف کا عالَم ہی نہیں ہے، اس لیے اس سلسلے میں کسی ایک پر بھی ملامت نہیں کی جا سکتی۔