Blog
Books
Search Hadith

نمازی کا امام کی طرف یا دائیں جانب کھنکارنے اور نماز میں کوکھوں پر ہاتھ رکھنے کی ممانعت کا بیان

۔ (۱۹۳۵) عَنْ أَبِیْ رَافِعٍ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ أَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم رَآی نُخَامَۃً فِی الْقِبْلَۃِ قَالَ: یَقُوْلُ مَرَّۃً: فَحَتَّہَا قَالَ: ثُمَّ قَالَ: قُمْتُ فَحَتَّیْتُہَا ثُمَّ قَالَ: ((أَیُحِبُّ أَحَدُ کُمْ إِذَا کَانَ فِی صَلَاتِہِ أَنْ یُتَنَخَّعَ فِی وَجْہِہِ أَوْ یُبْزَقََ فِیْ وَجْہِہِ؟ إِذَا کَانَ أَحَدُ کُمْ فِی صَلاَتِہِ فَلاَ یَبْزُقَنَّ بَیْنَیَدَیْہِ وَلاَ عَنْ یَمِیْنِہِ، وَلٰکِنْ عَنْ یَسَارِہِ تَحْتَ قَدَمِہِ، فَإِنْ لَمْ یَجِدْ قَالَ بِثَوْبِہِ ھٰکَذَا۔)) (مسند احمد: ۹۳۵۵)

سیدناابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے قبلہ کی جانب ایک کھنکار دیکھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے کھرچ دیا (ایک روایت کے مطابق ابوہریرہ کہتے ہیں کہ میں کھڑا ہوا اور اسے میں نے کھرچا) پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تم میں سے کوئی پسند کرتا ہے کہ جب وہ نماز میں ہو تو اس کے چہرے پر کھنکار پھینک دیا جائے یا تھوک دیا جائے؟ جب تم سے کوئی آدمی نماز میں ہو تو وہ ہر گز اپنے سامنے اور دائیں جانب نہ تھوکا کرے، البتہ بائیں جانب قدم کے نیچے تھوک لیا کرے، اگر وہ (جگہ) نہ پائے تو اپنے کپڑے میں تھوک لیا کرے۔
Haidth Number: 1935
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۹۳۵) تخریج: أخرجہ مسلم: ۵۵۰ (انظر: ۹۳۶۶)

Wazahat

فوائد:… سیدنا طارق بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، نبی پاک سے روایت کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: ((إِذَا صَلَّیْتَ فَلاَ تَبْصُقْ بَیْنَیَدَیْکَ، وَلاَ عَنْ یَمِیْنِکَ، وَلٰکِنِ ابْصُقْ تِلْقَائَ شِمَالِکَ إِنْ کَانَ فَارِغاً وَإِلاَّ فَتَحْتَ قَدَمَیْکَ وَادْلُکْہُ۔)) (سنن نسائی: ۱/ ۱۱۹، مسند احمد: ۶/ ۳۹۶) یعنی: جب تو نماز پڑھے تونہ اپنے سامنے تھوک اور نہ ہی دائیں طرف، بلکہ اگر بائیں جانب خالی ہے تو اُدھر تھوک لے، وگرنہ اپنے قدموں تلے تھوک کر اُس کو مل دے۔ اس میں نمازی کی قدر ومنزلت کا بیان ہے کہ اللہ تعالیٰ بھی اپنا رخِ انور اس کی طرف پھیر دیتے ہیں، لیکن شرط یہ ہے کہ وہ ظاہری طور پر اور باطنی طور پر یکسوئی اختیار کرے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کو بے توجہی اور برائی سے نفرت ہے۔ نیز اس حدیث سے نمازی کو ضرورت کے مطابق تھوکنے کی گنجائش ملتی ہے، اس پر تفصیلی بحث یہ ہے۔ عصر حاضر میںمساجد کی خوبصورت عمارتوں اور اس میں بچھی ہوئی خوبصورت چٹائیوں اور قالینوں کی وجہ سے درج بالا حدیث کو سمجھنے میں دقت پیش آئی ہے۔ یہ احادیث اس وقت بیان کی گئی تھیں، جب مساجد کا فرش نرم مٹی اور ریت پر مشتمل ہوتا تھا اور ان میں بچھانے کے لئے صفیں بھی نہیں ہوتی تھیں۔ درحقیقت مسئلہ یوں ہے کہ بوقت ِ ضرورت مسجد میں تھوکنا جائز ہے، جیسا کہ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مسجد کی قبلہ والی سمت میں تھوک دیکھی، جو آپ پر بڑی گراں گزری، بہرحال آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کو صاف کیا اور فرمایا: ((اِنَّ اَحَدَکُمْ اِذَا قَامَ فِیْ صَلَاتِہٖفَاِنَّّمَایُنَاجِیْ رَبَّہٗ،فَلَایَبْزُقَنَّ فِیْ قِبْلَتِہٖوَلٰکِنْعَنْیَّسَارِہٖ اَوْ تَحْتَ قَدَمِہٖ۔)) (بخاری: ۴۰۵) یعنی: جب تم میں سے کوئی آدمی نماز میں کھڑا ہوتا ہے تو وہ اپنے ربّ سے سرگوشی کر رہا ہوتا ہے، اس لئے وہ قبلہ والی سمت میں نہ تھوکے، البتہ بائیں جانب یا اپنے پاؤں کے نیچے تھوک سکتا ہے۔ پھر (تیسرا طریقہ بیان کرتے ہوئے) آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنی چادر کا کنارہ پکڑا، اس میں تھوکا اور اس کو مل دیا اور فرمایا: یا پھر اس طرح کر لیا کرے۔ اس موضوع پر دلالت کرنے والی کئی احادیث ہیں، لیکن درج ذیل حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ رخصت اس وقت ہے جب آدمی نماز پڑھ رہا ہو اور اسے مجبوراً تھوکنا پڑ جائے۔ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ہی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ((اَلْبُزَاقُ فِیْ الْمَسْجِدِ خَطِیْئَۃٌ وَکَفَّارَتُھَا دَفْنُھَا۔)) (بخاری:۴۱۵) یعنی: مسجد میں تھوکنا گناہ ہے اور اس کا کفارہ تھوک کو دفن کر دینا ہے۔ رہا مسئلہ قبلہ والی سمت میں تھوکنے کا، تو وہ بھی منع ہے، جیسا کہ مذکورہ بالا حدیث سے پتہ چلتا ہے، نیز اس موضوع پر کئی دوسری احادیث موجود ہیں۔ بہرحال مساجد کی موجودہ صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے آخری طریقہ اختیار کیا جائے یعنی کپڑے یا ٹشو پیپر وغیرہ پر تھوک لیا جائے۔