Blog
Books
Search Hadith

نماز میں سبحان اللہ کہنے ، تالی بجانے اور اشارہ کے جواز کا بیان (نماز میں سلام کا جواب دینے کی بحث)

۔ (۱۹۴۲) عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ أَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَانَ یُشِیْرُ فِی الصَّلاَۃِ۔ (مسند احمد: ۱۲۴۳۴)

سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نماز میں اشارہ کیا کرتے تھے۔
Haidth Number: 1942
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۹۴۲) تخریج: اسنادہ صحیح علی شرط الشیخین۔ أخرجہ ابوداود: ۹۴۳ (انظر: ۱۲۴۰۷)

Wazahat

فوائد:… ان احادیث سے معلوم ہوا کہ نمازی کو سلام کہنا اور اس کا اشارے کے ساتھ جواب دینا مشروع ہے، درج بالا تین احادیث کے مطالعہ کرنے کے بعد درج ذیل کا مطالعہ مفید رہے گا: عَنْ أَبِی سَعِیْدِ نِ الْخُدْرِیِّ: أَنَّ رَجُلاً سَلَّمَ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَھُوَ فِی الصَّلاَۃِ، فَرَدَّ النَّبِیُّ بِإِشَارَۃٍ، فَلَمَّا سَلَّمَ قَالَ لَہُ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((إِنَّا کُنَّا نَرُدُّ السَّلاَمَ فِی صَلاَ تِنَا، فَنُہِیْنَا عَنْ ذٰلِکَ۔)) (المعجم الاوسط: ۲/۲۴۶/۱/۸۷۹۵، مسند البزار: ۱/ ۲۶۸/ ۵۵۴، شرح المعانی للطحاوی: ۱/ ۲۶۳، الصحیحۃ:۲۹۱۷) سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو سلام کہا جبکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نماز میں تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اشارہ کے ذریعے اس کے سلام کا جواب دیا۔ جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سلام پھیرا تو فرمایا: ہم نماز میں (زبان کے ساتھ) سلام کا جواب دیا کرتے تھے، لیکناب ہمیں ایسا کرنے سے منع کر دیا گیا ہے۔ امام نافع کہتے ہیں: سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ایک آدمی کے پاس سے گزرے، وہ نماز پڑھ رہا تھا، آپ نے اسے سلام کہا، اس نے بول کر جواب دیا۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اس کی طرف پلٹ کر آئے اور اسے کہا: جب کوئی نماز پڑھ رہا ہو اور اسے سلام کہا جائے تو وہ بول کر جواب نہ دے، بلکہ اپنے ہاتھ سے اشارہ کر دیا کرے۔ (مؤطا امام مالک) ابتدائے اسلام میں نماز کے دوران کسی سے ہم کلام ہونا جائز تھا، لیکن جب یہ آیت نازل ہوئی: {حَافِظُوْا عَلَی الصَّلَوَات وَالصَّلٰوۃِ الْوُسْطٰی وَقُوْمُوْا لِلّٰہِ قَانِتِیْنَ} (سورۂ بقرہ: ۲۳۸) یعنی: (تمام) نمازوں کی حفاظت کرو، بالخصوص درمیان والی (عصر کی) نماز کی اور اللہ تعالیٰ کے لئے باادب کھڑے رہا کرو۔ تو نماز میں کلام کرنا حرام ہو گیا۔ لیکن نماز کے دوران بعض امور کو اشاروں کے ذریعے سرانجام دینےکی رخصت دی گئی، ان میں سے ایک سلام کا جواب دینا ہے،جس کا ان احادیث ِ مبارکہ میں ذکر ہے۔ امام البانی رحمہ اللہ کہتے ہیں: یہ (سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی) حدیث انتہائی صراحت کے ساتھ اس بات پر دلالت کر رہی ہے کہ دورِ مکہ کے دوران ابتدائے اسلام میں نمازی بول کر سلام کا جواب دیتا تھا، مدینہ منورہ میں اس طریقہ کو منسوخ کر کے اشارہ کے ساتھ جواب دینے کی اجازت دی گئی۔ اگر معاملہ اس طرح ہے تو نمازی کو سلام کہنا مستحب ہو گا، کیونکہ حضرت محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے سلام کو برقرار رکھا، جب انھوں نے آپ کو سلام کہا اور آپ نماز ادا کر رہے تھے۔ اسی طرح بعض دوسرے صحابہ نے بھی آپ کو سلام کہا تھا اور آپ نے ان کے سلام کو برقرار رکھا۔ اس مسئلہ کی وضاحت مختلف اسانید سے ثابت ہونے والی کافی ساری معروف احادیث سے ہوتی ہے۔ لہٰذا انصارالسنّہ کو چاہیے کہ وہ ان احادیث پر عمل کریں، ان کو لوگوں تک پہنچانے میں اور ان کو ان پر عمل کرنے کی ترغیب دلانے میں نرمی برتیں، کیونکہ لوگوں کو جس چیز کا علم نہ ہو، وہ اس کے دشمن بن جاتے ہیں، بالخصوص خواہش پرست اور بدعتی لوگ۔ (صحیحہ: ۲۹۱۷) امام البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث پر یہ باب قائم کیا: نمازی، مؤذن اور قاریٔ قرآن پر سلام کہنے کا حکم اور کہا: امام مروزی نے (المسائل: صـ۲۲) میں کہا: میں نے امام احمد سے کہا: کیا نماز میں مصروف لوگوں کو سلام کہا جائے؟ انھوں نے کہا: جی ہاں۔ پھر انھوں نے سیدنا بلال ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا قصہ بیان کیا کہ جب ان سے سیدنا ابن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے پوچھا: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم (نماز میں) سلام کا جواب کیسے دیتے تھے؟ تو انھوں نے کہا: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اشارہ کرتے تھے۔ فقہ مالکی کے بعض محققین نے نمازی کا اشارہ کے ساتھ سلام کا جواب دینے والا مسلک اختیار کیا۔ قاضی ابو بکر بن عربی نے (العارضۃ: ۲/ ۱۶۲) میں کہا: نماز میں کبھی تو سلام کا جواب دینے کے لیے اشارہ کیا جاتا ہے اور بسا اوقات نمازی کو پیش آنے والی ضرورت کی وجہ سے۔ سلام کے جواب کے بارے میں مختلف صحیح آثار و احادیث مروی ہیں، جیسے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مسجد ِ قبا میں کیا۔ میں ایک دن طرطوشی کی مجلس میں تھا، اسی مسئلہ پر مذاکرہ ہونے لگا، ہم نے بطورِ دلیل ایک حدیث پیش کی اور اس سے حجت پکڑی۔ مجلس کے آخر سے ایک عام آدمی کھڑا ہواور کہا: شاید آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے اشارے کا مطلب سلام کہنے والوں کو سلام کہنے سے منع کرنا ہو۔ ہمیں اس کی (نام نہاد) فقہ پر بڑی حیرانگی ہوئی۔ پھر ہم نے دیکھا کہ سلام والی حدیث کو روایت کرنے والا صحابی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے اشارے سے سلام کا جواب دینا ہی سمجھا تھا، اس لیے اصولِ فقہ کے قوانین کے مطابقیہ حدیث اپنے باب میں قطعی ہو گی۔ (حیرانگی سے مراد اس کی فقہ پر تنقید کرنا ہے) بڑی حیران کن بات ہے کہ امام نووی نے (الأذکار) میں پہلے نمازی پر سلام کہنے کو مکروہ قرار دیا اور پھر کہا: مستحب یہ ہے کہ نمازی اشارہ کر کے سلام کا جواب دے دے، زبان سے کوئی لفظ نہ کہے۔ میں (البانی) کہتا ہوں: حیرانی کی بات یہ ہے کہ اشارے کے ساتھ سلام کا جواب دینے کو مستحب کہہ دیا اور سلام کرنے کو مکروہ، حالانکہ جواب کو مستحب کہنے کا مطلب یہ ہے کہ سلام کہنا بھی مستحب ہے اور جواب کو مکروہ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ سلام کہنا بھی مکروہ ہے۔ اگر جواب دینا مکروہ ہوتا تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سلام کا اشارے کے ساتھ جواب نہ دے کر اس کی وضاحت کر دیتے، کیونکہیہ مسلمہ قانون ہے کہ کسی مسئلہ کی وضاحت کو اس کی ضرورت و حاجت کے وقت سے مؤخر نہیں کیا جا سکتا۔ اس حدیث اور اس بحث سے ثابت ہوتا ہے کہ مؤذن اور قاریٔ قرآن کو بھی سلام کہنا چاہیے، کیونکہ ہر ایک کو سلام کہنا مشروع ہے، اس کی دلیل پہلے گزر چکی ہے، اگر نمازی کو سلام کہنا مستحب ہے تو مؤذن اور قاری تو بالاولی سلام کے مستحق ٹھہریں گے۔ مجھے یاد آ رہا ہے کہ میں نے مسند میں ایک حدیث پڑھی تھی، جس کے مطابق نبیکریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے قرآن مجید کی تلاوت کرنے والی ایک جماعت کو سلام کہا تھا، میں چاہتا ہوں کہ اس حدیث تک رسائی حاصل کر کے اس کی سند پر بحث کروں، لیکن فی الحال وہ مجھے نہیں مل رہی۔ رہا یہ مسئلہ کہ کیا مؤذن اور قاری سلام کا جواب لفظ کے ساتھ دیںیا اشارے کے ساتھ؟ پہلیبات زیادہ واضح معلوم ہو رہی ہے، امام نووی نے کہا: عام حالات کی طرح مؤذن کا بول کر سلام کا جواب دینا مکروہ نہیں ہے، کیونکہیہ معمولی سا عمل ہے، اس سے اذان باطل ہوتی ہے نہ اس میں خلل پڑتا ہے۔ (صحیحہ: ۱۸۵) نمازی کا اشارہ کے ساتھ سلام کا جواب دینا، اس موضوع پر دلالت کرنے والی تمام روایات نماز میں کلام کے حرام ہو جانے کے بعد پیش آئیں، اس کا لامحالہ نتیجہیہ ہے کہ اشارے کا کلام کی حرمت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے کہ دونوں کو ایک سمجھ کر ناجائز قرار دیا جائے۔ جو لوگ سلام کا اشارے کے ذریعے جواب دینے کے قائل نہیں ہے، انھوں نے اپنے حق میں درج ذیل دلیل بھی پیش کی ہے۔ عَنْ عَبْدِاللّٰہِ یَعْنِی (ابْنَ مَسْعُوْدٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ) قَالَ: کُنَّا نُسَلِّمُ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَھُوَ فِی الصَّلاَۃِ فَیَرُدُّ عَلَیْنَا، فَلَمَّا رَجَعْنَا مِنْ عِنْدِ النَّجَاشِیِّ سَلَّمْنَا عَلَیْہِ فَلَمْ یَرُدَّ عَلَیْنَا فَقُلْنَا: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! کُنَّا نُسَلِّمُ عَلَیْکَ فِی الصَّلَاۃِ فَتَرُدُّ عَلَیْنَا، فَقَالَ: ((إِنَّ فِی الصَّلاَۃِ لَشُغْلاً۔)) (بخاری: ۱۱۹۹، ۱۲۱۶، مسلم: ۵۳۸، مسند احمد: ۳۵۶۳) سیدنا عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو سلام کرتے تھے، جب کہ آپ نماز میں ہوتے، اور آپ ہمیں جواب دیتے تھے، لیکن جب ہم نجاشی کے پاس سے واپس آئے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو سلام کہا تو آپ نے ہمیں جواب نہ دیا۔ ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم نماز میں آپ کو سلام کہتے تھے توآپ جواب دیتے تھے، لیکن آج؟ تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یقینا نماز میں مصروفیت ہوتی ہے۔ اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو سلام کہا لیکن آپ نے ہمیں جواب نہ دیا۔ سے یہ استدلال کیا گیا ہے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جواب دینے کے لیے نہ کلام کی اور نہ اشارہ کیا۔ لیکن حقیقت ِ حال یہ ہے کہ یہ استدلال کمزور ہے، اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ سیدنا عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ خود بھی اشارے کے ذریعے جواب دینے والی روایت نقل کرتے ہیں اور دوسری روایات کی روشنی میں اس حدیث کا معنییہ ہو گا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بول کر جواب نہیں دیا، جبکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ نماز پڑھنے کے بعد وضاحت بھییہ فرمائی کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے جواب نہ دینے کی وجہ یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے کلام کرنے سے منع کر دیا ہے۔