Blog
Books
Search Hadith

اللہ کے ڈر سے نماز میں رونے کے جائز ہونے کا بیان

۔ (۱۹۴۹) عَنْ عَائِشَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا فِیْ حَدِیْثِ مَرْضِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الَّذِیْ تُوُفِّیَ فِیْہِ، أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((مُرُوْا أَبَابَکْرٍ فَلْیُصَلِّ بِالنَّاسِ۔)) قَالَتْ عَائِشَۃُ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! إِنَّ أَبَابَکْرٍ رَجُلٌ رَقِیْقٌ لاَ یَمْلِکُ دَمْعَہُ، وَإِنَّہُ إِذَا قَرَأَ الْقُرْآنَ بَکٰی، قَالَتْ: مَا قُلْتُ ذٰلِکَ إِلاَّ کَرَاھِیَۃَ أَنَّ یَتَاثَّمَ النَّاسُ بِأَبِیْ بَکْرٍ أَنْ یَّکُوْنَ أَوَّلَ مَنْ قَامَ مَقَامَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، فَقَالَ: ((مُرُوْا أَبَا بَکْرٍ فَلْیُصَلِّ بِالنَّاسِ۔)) فَرَاجَعْتُہُ، فَقَالَ: ((مُرُوا أَبَا بَکْرٍ فَلْیُصَلِّ بِالنَّاسِ، إِنَّکُنَّ صَوَاحِِبُ یُوسُفَ۔)) (مسند احمد: ۲۴۵۶۲)

سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی اس بیماری کا واقعہ بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں، جس میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فوت ہو گئے تھے: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ابو بکر کو حکم کرو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھا دے۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! بلاشبہ ابو بکرنرم دل آدمی ہیں، اپنے آنسوؤں پر قابو نہیںپا سکتے، اس لیے جب وہ قرآن پڑھیں گے تو رو پڑیں گے۔ میں نے یہ بات صرف اس چیز کو ناپسند کرتے ہوئے کہی تھی کہ لوگ گناہ میں پڑ جائیں گے کہ ابو بکر سب سے پہلے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے مقام پر کھڑے ہو گئے ہیں۔لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پھر فرمایا: ابو بکر کو حکم دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھا دیں۔ میں نے تکرار کرتے ہوئے پھر وہی بات کہی، لیکن اس بار آپ نے فرمایا: ابو بکرکو حکم دوکہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں،یقینا تم حضرت یوسف علیہ السلام کی صواحب کی طرح ہو۔
Haidth Number: 1949
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۹۴۹) تخریج: أخرجہ مسلم: ۴۱۸ (انظر: ۲۴۰۶۱)

Wazahat

فوائد:… ان احادیث سے معلوم ہوا کہ اس انداز میں نماز کے اندر رونا پسندیدہ چیز ہے۔ یہ فرق کرنا خواہ مخواہ کا تکلف ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کے ڈر یا جنت و جہنم کییاد کی وجہ سے رونا آجائے تو نماز باطل نہیں ہو گی اور اگر کسی تکلیفیا مصیبت کی وجہ سے رونا آ جائے تو نماز باطل ہو جائے گی۔ یہ فرق کسی شرعی دلیل سے ثابت نہیں ہوتا۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کا مقصد یہ نہیں تھا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی بجائے کسی اور صحابی کا تعین کر دیں، بلکہ وہ اپنے باپ کے حق میں مزید تاکید چاہتی تھیں کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پھر ابو بکر کا ہی نام لیں گے۔ صاحب فوائد فاضلn نے اس بات کا کوئی حوالہ نہیں دیا کہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا مزید تاکید چاہتی تھیں۔ جبکہ زیر مطالعہ حدیث جو کہ صحیح مسلم میں بھی ہے اور اس سے پتا چلتا ہے کہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے پیشِ نظر لوگوں کا گناہ میں پڑ جانے کا خطرہ تھا۔ صحیح بخاری (۴۴۴۵) میں بھی صاف آ رہا ہے کہ عائشہ کا خیال تھا کہ (نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے بعد پہلے والی برکت باقی نہ رہنے کی وجہ سے) آپ کی جگہ آنے والے پہلے شخص کے ساتھ لوگ نحوست محسوس کریں گے اور عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو اس صورتِ حال سے الگ کرنا چاہتی تھیں۔بہرحال اصل اعتبار تو بخاری و مسلم کے حوالہ سے عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے اپنے بیان کا ہے، نہ کہ دلیل کے بغیر صرف ظن اور رائے کا۔ حضرتیوسف علیہ السلام کی صاحبات سے مراد زلیخا ہے، جس نے مختلف خواتین کو بلایا تو دعوت کے لیے تھا، لیکن اس کا مقصد یہ تھا کہ وہ یوسف کا حسن کا اندازہ کر لیں اور اسے یوسف کی محبت میں معذور سمجھیں۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو تشبیہ دینے کی وجہ یہ ہے کہ وہ بھی کہہ تو کچھ اور رہی تھیں، لیکن ان مقصد کچھ اور تھا۔ حدیث میں لفظ تو جمع استعمال کیے گئے ہیں، لیکن ان مراد ایک ایک خاتون ہے، سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا اور زلیخا۔ اس جگہ صواحب یوسف سے مراد صرف زلیخا نہیں بلکہ دیگر عورتیں بھی ہیں۔ وہ کوئی چال چل رہی تھیں درج ذیل قرآنی عبارات سے اس بات پر روشنی پڑتی ہے۔ ۱۔ یوسف علیہ السلام کی بات: {رَبِّ السِّجْنُ اَحَبُّ اِلَیَّ مِمَّا یَدْعُوْنَنِیْ اِلَیْہِ} اے میرے رب! قید مجھے اس سے زیادہ پسند ہے، جس کی طرف یہ (عورتیں) مجھے بلا رہی ہیں۔ ۲۔ یوسف علیہ السلام کی بات: {اِنَّ رَبِّیْ بِکَیْدِہِنَّ عَلِیْمٌ} یقینا میرا رب ان کی چال کو خوب جانتا ہے۔ ۳۔ عزیز مصر کا عورتوں سے سوال: {مَا خَطْبُکُنَّ اِذْ رَاوَتُّنَّ یُوْسُفَ عَنْ نَّفْسِہٖ} تمہاراکیا معاملہ ہے جب تم نے یوسف کو اس کے نفس کے بارے بہکایا۔ اس بات کی تفصیل مذکورہ آیات کے تحت تفسیر القرآن الکریم از حافظ عبدالسلام بن محمدn میں دیکھیں۔ ((اِنَّکُنَّ لَاَنْتُنَّ صَوَاحِبُ یُوْسُفَ)) سے مراد صرف عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نہیں۔ (صحیح بخاری: ۶۲۹) میں ہے کہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے کہنے پر حفصصہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے بھی ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے بجائے عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو لوگوں کی امامت کرانے کے حوالہ سے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے بات کی تھی۔