Blog
Books
Search Hadith

نماز میں دو سیاہ جانوروں(بچھو اور سانپ) کو قتل کرنے ، معمولی مقدار میں چلنے اور اس سلسلے میں کسی ضرورت کی وجہ سے اِدھر اُدھر متوجہ ہونے کے جواز کا بیان

۔ (۱۹۵۱) عَنْ عُرْوَۃَ عَنْ عَائِشَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا قَالَتْ: کَانَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یُصَلِّیْ فِی الْبَیْتِ وَالْبَابُ عَلَیْہِ مُغْلَقٌ فَجِئْتُ فَمَشٰی حَتّٰی فَتَحَ لِیْ ثُمَّ رَجَعَ إِلٰی مَقَامِہِ، وَوَصَفَتْ أَنَّ الْبَابَ فِی الْقِبْلَۃِ۔ (مسند احمد: ۲۴۵۲۸)

سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم گھر میں نماز پڑھ رہے ہوتے تھے اور دروازہ بند ہوتا تھا، پھر جب میں آتی تھی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم (آگے) چلتے اور میرے لیے دروازہ کھول کر اپنے مقام پر واپس آ جاتے تھے۔ پھر انھوں نے بیان کیا کہ وہ دروازہ قبلہ کی سمت میں تھا۔
Haidth Number: 1951
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۹۵۱)تخریج:اسنادہ حسن۔ أخرجہ ابوداود: ۹۲۲، والترمذی: ۶۰۱ (انظر: ۲۴۰۲۷)

Wazahat

فوائد:… اس میں کوئی شک نہیں کہ نماز میں ہر قسم کی زائد حرکت منع ہے،کیونکہ اس سے نماز کا خشوع و خضوع متاثر ہوتا ہے، باب نماز میں بال باندھنے، کنکریوں سے کھیلنے اور پھونکنے کا بیان میں اس قسم کے بعض امور کا ذکر ہو چکا ہے، لیکن بعض دفعہ کسی اشد ضرورت کی بنا پر نماز کے اندر کوئی خارجی کام یا حرکت کرنے کی نوبت آجاتی ہے، سب سے پہلے ہم شریعت میں ثابت ہونے والی ایسی مثالوں کا ذکر کرتے ہیں۔ (۱) ارشادِ باری تعالیٰ ہے: {فَاِنْ خِفْتُمْ فَرِجَالًا اَوْ رُکْبَانًا} یعنی: جب تمہیں خوف ہو تو پیدل ہی سہییا سوار ہی سہی۔ (سورۂ بقرہ: ۲۳۸) اس آیت میں خوف کے وقت پیدل چلتے ہوئے یا سواری پربیٹھ کر نماز پڑھنے کا حکم دیا جا رہا ہے۔ (۲) سانپ اور بچھو کو قتل کرنا۔ اِس اور اگلے دو امور کا ذکر اسی باب میں ہے۔ (۳) قبلہ کی سمت میں واقع دروازہ کھولنا۔ (۴) سیدنا ابو برزہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا سواری کی لگام پکڑ کر نماز پڑھنا اور اس کے ساتھ پیچھے ہٹ جانا، پھر اس فعل کا رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی سنتوں سے استدلال کرنا۔ (۵) آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا بچی کو اٹھا کر نماز پڑھنا اور رکوع کرتے وقت اس کو زمین پر بٹھا دینا اور پھر اگلی رکعت میں اٹھا لینا۔ (اس کا ذکراگلے باب میں آ رہا ہے)۔ (۶) نماز کسوف میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا جنت کے انگور کا خوشہ پکڑنے کے لیے آگے بڑھنا اور جہنم کو دیکھ کر پیچھے ہٹنا۔ (بخاری: ۱۲۱۲) (۷) سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ جو کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بائیں جانب کھڑے ہو گئے تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کے سرپر ہاتھ رکھا اور ان کے کان کو مروڑا اور گھما کر دائیں جانب کھڑا کر دیا۔ (بخاری: ۱۸۳، ۹۹۲، ۱۱۹۸، مسلم: ۱۸۲) (۸) سیدنا سہل بن سعد ساعدی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ صلح کرانے کے لیے بنو عمرو کی طرف گئے، مسجد نبوی میں نماز کا وقت ہو گیا، سیدنا ابو بکر صدیق ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے امامت کے فرائض ادا کرنا شروع کیے، اتنے میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تشریف لائے اور صف میں کھڑے ہو گئے۔ لوگوں نے ابو بکر صدیق کو متنبہ کرنے کے لیے تالیاں بجائیں، چونکہ وہ نماز میں ادھر ادھر متوجہ نہیں ہوتے تھے، اس لیے لوگوں نے کثرت سے تالیاں بجانا شروع کر دیں، بالآخر انھوں نے پیچھے دیکھا تو کیا دیکھتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم صف میں کھڑے ہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کی طرف اشارہ کیا کہ اپنے مقام پر ٹھہرے رہو اور(نماز کی امامت جاری رکھو)۔ لیکن ابو بکر صدیق ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ہاتھ اٹھائے تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے آپ کو نماز جاری رکھنے کے بارے حکم دینے پر اللہ کی حمد بیان کی اور پھر پیچھے ہو گئے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے آگے بڑھ کر امامت سنبھال لی۔ (بخاری: ۶۸۴، مسلم: ۱۰۳) (۹) صحابہ کرام کو تعلیم دینے کی خاطر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے منبر پر نماز پڑھائی اور سجدے کرنے کے لئے نیچے اتر آئے اور پھر منبر پر چڑھ گئے۔ (بخاری، مسلم) (۱۰) آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے ایک صحابی نے سخت گرمی کی وجہ سے کچھ کنکریاں ہاتھ میں پکڑ لیں، تاکہ وہ ٹھنڈی رہیں، جب بھی وہ سجدہ کرتے تو زمین کی حرارت سے بچنے کے لئے ان کو زمین پر بچھا دیتے۔ (ابوداود) (۱۱) نمازی کا اپنے آگے سے گزرنے والے کو روکنا، وگرنہ اس سے لڑائی کرنا۔ ان احادیث اور اس موضوع سے متعلقہ دوسری احادیث سے معلوم ہوا کہ ضرورت کے وقت اس قسم کی حرکات و سکنات میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ یہ شریعت ِ اسلامیہ کی کمال حکمت ہے کہ جہاں اس نے دورانِ نماز عجزو انکساری اور خشوع و خضوع کو اپنانے اور فضول حرکتوں سے گریز کرنے کا حکم دیا، وہاں انسانی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے اور نماز کے سکون کو تحفظ فراہم کرتے ہوئے بعض گنجائشوں کو بھی برداشت کر لیا۔ مثال کے طور پر ایک دفعہ ہم گھر کے سارے افراد گھر میں باجماعت نماز پڑھ رہے تھے، دوران نماز ایک چھوٹی سی بچی ہاتھ اٹھا کر سٹینڈ والے پنکھے کی طرف بڑھی، ایسے معلوم ہو رہا تھا کہ اگر وہ اسی انداز میں پنکھے تک پہنچ گئی تو انگلیوں کو شدید نقصان ہو سکتا ہے، یہ صورتحال دیکھ کر ایک نمازی آگے بڑھا اور بچی کو اٹھا کر واپس اپنی جگہ پر آکر نماز کو جاری رکھا۔ اس نمازی کا یہ فعل روحِ شریعت کے عین مطابق ہے۔ قارئین کرام! اگر وہ آدمی آگے بڑھ کر بچی کو نہ اٹھاتا تو سارے افراد نماز کے بقیہ حصے کو کس کشمکش میں ادا کرتے اور یہ کیسی عبادت ہوتی کہ ایک بچی کی انگلیاں کٹ رہی ہوں اور کسی کو اس کو بچانے کی اجازت نہ ہو۔ ہمارے ہاں سب سے بڑی مصیبتیہ ہے کہ جتنی لوگوں کے علم اور مطالعہ میں سستی اور کمی ہے، اتنی ہی فتوی بازی میں تیزی اور کثرت ہے، ہم لوگ صرف ظاہر کو دیکھتے ہیں، عبادت کا مقصد کیا ہے، اس کی روح کیا اور شریعت میں دی گئی رخصتوں کی تفصیل کیا ہے، ان امور سے ہمارا کوئی تعلق نظر نہیں آتا۔ ہماری عوام کا عملی نظریہیہ ہے کہ اگر کوئی آدمی نماز کا ایک کلمہ بھی سوچے سمجھے بغیر اور انتہائی بے توجہی کے عالَم میں نماز ادا کر لے تو اس کی نماز میں کوئی حرج نہیں، لیکن اگر کوئی آدمی نماز کے ایک ایک جملے کو سمجھتا ہے، لیکن دورانِ نماز کسی ضرورت کی وجہ سے بچہ اٹھا لیتا ہے تو فتوی باز عوام اور جاہلوں کے نزدیک اس کی نماز بڑی حد تک متأثر ہو گییا پھر باطل ہو جائے گی۔ ضروری تنبیہیہ ہے کہ اگر نمازی، نماز کے کلمات کو سمجھ کر ادا کر رہا ہو تو ایسی حرکات سے نماز میں کوئی خلل پیدا نہیں ہوتا۔ ہمارے ہاں سب سے بڑی مصیبتیہ ہے کہ لوگوں نے بغیر کسی غور و فکر کے نماز، ذکر اور قرآن کے الفاظ رٹے ہوتے ہیں، جب بیچ میں کوئی معمولی سی رکاوٹ پیدا ہوتی ہے تو ان کی نماز ان پر خلط ملط ہو جاتی ہے، جس کی وجہ سے وہ سلام پھیرنے کے بعد دوسروں پر برس پڑتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو علم ہونا چاہیے کہ اگر محمد رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے نماز میں خشوع و خضوع اور عجز و انکساری اختیار کرنے کی تعلیم دی ہے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہییہ رخصتیں عطا کی ہیں، جو آدمی ان رخصتوں کو قبول کرنے سے کتراتا ہے، دوسرے الفاظ میں وہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے آگے بڑھنے کی مذموم کوشش کرتا ہے۔