Blog
Books
Search Hadith

بھول جس قسم کی بھی ہو، اس کے لئے سلام کے بعد سجدے کرنا

۔ (۲۰۰۹) عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ جَعْفَرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((مَنْ شَکَّ فِی صَلَاتِہٖفَلْیَسْجُدْ سَجْدَتَیْنِ بَعْدَ مَایُسَلِّمُ۔)) (مسند احمد: ۱۷۵۲)

سیدناعبد اللہ بن جعفر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس آدمی کو اپنی نماز میں شک ہو جائے تو وہ سلام پھیرنے کے بعد دو سجدے کرلے۔
Haidth Number: 2009
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Doubtful

ضعیف

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۲۰۰۹) تخریج: اسنادہ ضعیف، عبد اللہ بن مسافع لایعرف بجرح ولاتعدیل، ومصعب بن شیبۃ: لین الحدیث، و عتبۃ بن محمد لیس بمعروف قالہ النسائی، وذکرہ ابن حبان فی الثقات وضعفہ ابن قدامۃ فی المغنی ۔ أخرجہ ابوداود: ۱۰۳۳، والنسائی: ۳/ ۳۰ (انظر: ۱۷۴۷، ۱۷۵۲)

Wazahat

فوائد:… مسند احمد میں سہو اور اس کی مختلف کیفیات سے متعلقہ تمام روایات کا احاطہ نہیں کیا گیا، اس لیے درج ذیل میں اس باب کا خلاصہ ذکر کیا جاتا ہے، قارئین ازبر کر لیں: (/۲۳۶۔ الحلبي، والترمذي: ۲/۲۴۳۔ شاکر، وابن ماجہ: ۱/۳۶۳، وأحمد: ۳/۱۲، وأخرج مسلم نحوہ) نماز میں بھول جانا ایک ایسا فطرتی عمل ہے کہ کسی کو بھی اس سے مستثنی نہیں کیا جا سکتا، بہرحال اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ذریعے بھول چوک کی مختلف صورتوں اور ان کے ازالے کی وضاحت کر دی ہے، سہو کے بارے میں مختلف احادیث ِ صحیحہ کا خلاصہ درج ذیل ہے۔ (۱) اگر درمیانہ تشہد رہ جائے تو اس کا اعادہ کئے بغیر سہو کے سجدے سلام سے پہلے کیے جائیں۔ (بخاری، مسلم) اور سلام کے بعد کرنا بھی جائز ہیں۔ (ترمذی) (۲) اگر رکعات کی تعداد میں شک ہو جائے اور کوئی حتمی فیصلہ نہ ہو سکے تو کم تعداد پر بنیاد رکھ کر نماز مکمل کی جائے اور سہو کے سجدے قبل از سلام کئے جائیں۔ (ترمذی، ابوداود، ابن ماجہ) مثال کے طور پر نمازی چار رکعت نماز ادا کر رہا تھا، اسے یہ شک پڑ گیا کہ وہ تین رکعات ادا کر چکا ہے یا چار۔ ایسی صورت میں اسے چاہیے کہ وہ تین رکعتیں ہی سمجھ کر چوتھی پوری کر کے سجدۂ سہو کرے۔ (۳) کسی رکن کی ادائیگی کے بغیر سلام پھیر دیا، تو سابقہ نماز کو بنیاد بنا کر اپنی نماز مکمل کرے اور سلام پھیر کر سجدے کرے اور پھر سلام پھیرے۔ (مسلم) مثلا چار رکعت والی نماز میں تین رکعتوں کے بعد سلام پھیر دیا، جب حقیقت ِ حال کا علم ہوا تو ایک رکعت مکمل کر کے سجدۂ سہو کیا جائے۔ (۴) نماز میں شک پڑ جائے اور مختلف قرائن کی مدد سے ایک صورت پر ظن غالب ہو جائے تو بعد از سلام سجدے کئے جائیں۔ (بخاری، مسلم) (۵) اگر سلام کے بعد کسی زیادتی کا پتہ چلے یا ایسی کمی کا جس کا اعادہ نہیں کیا جاتا، تو اسی وقت سجدے کئے جائیں اور پھر سلام پھیرا جائے۔ (بخاری، مسلم) مثلا سلام پھیرنے کے بعد پتہ چلے کہ پانچ رکعتیں پڑھ لی گئی ہیںیا تشہد رہ گیا ہے۔ یہ مختلف صورتیں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے فعلی طور پر یا قولی طور پر ثابت ہیں۔ اب نمازی کو چاہیے کہ بھول چوک کی مذکورہ بالا اور ان سے ملتی جلتی صورتوں میں مندرجہ بالا طریقے اختیار کرے، اگر کسی کا نسیان مذکورہ بالا صورتوں سے بالکل مختلف ہو تو سیدنا ثوبان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی روایت پر عمل کیا جائے، جس کے مطابق رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ((لِکُلِّ سَھْوٍ سَجْدَتَاَنِ بَعْدَ مَا یُسَلِّمُ۔)) (ابوداود، ابن ماجہ)… ہر سہو میں دو سجدے بعد از سلام کئے جائیں گے۔ تنبیہ: نمازی کے لیےیہ فیصلہ کرنا کیسے ممکن ہے کہ اسے بھول چوک کی فلاں کیفیت پر سجدۂ سہو کرنا چاہیے اور فلاں پر نہیں؟ ایسے معلوم ہوتا ہے کہ معمولی بھوک چوک پر سجدۂ سہو کرنے کی ضرورت نہیں ہے، مثلا پہلی رکعت کے بعد دوسری رکعت کے لیے کھڑا ہونے کے بجائے نمازی تشہد کے لیے بیٹھ جائے اور تشہد کے ایک دو کلمات ادا کرنے کے بعد اسے اپنی خطا کا احساس ہو جائے اور وہ دوسری رکعت کے لیے کھڑا ہو جائے۔ علی ہذا القیاس۔ ایسی صورت میں (ان شاء اللہ) سہو کے سجدے کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ جیسا کہ سیدنا مغیرہ بن شعبہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ((اِذَا قَامَ الْاِمَامُ فِیْ الرَّکْعَتَیْنِ فَاِنْ ذَکَرَ قَبْلَ اَنْ یَّسْتَوِیَ قَائِمًا فَلْیَجْلِسْ (وَلَا سَھْوَ عَلَیْہِ) وَاِنْ اسْتَوٰی قَائِمًا فَلَا یَجْلِسْ، وَیَسْجُدُ سَجْدَتَیِ السَّھْوِ۔)) (ابوداود: ۱۰۳۶، ابن ماجہ: ۱۲۰۸، صحیحہ: ۳۲۱، قوسین والے الفاظ دارقطنی کے ہیں) … اگر امام دو رکعتوں کے بعد (تشہد کے لیے بیٹھنے کے بجائے) کھڑا ہو جائے اور مکمل کھڑا ہونے سے پہلے اسے یاد آ جائے تو وہ بیٹھ جائے، ایسی صورت میں اس پر کوئی سہو نہیں ہو گا اور اگر وہ سیدھا کھڑا ہو جائے تو (تشہد کے لیے) نہ بیٹھے (اور اپنی نماز جاری رکھے) اور سہو کے دو سجدے کر لے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بھول کر کھڑا ہونا، لیکنیاد آ جانے کی وجہ سے مکمل کھڑا ہونے سے پہلے بیٹھ جانا معمولی بھول چوک ہے، اس لیے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایسی صورت میں سہو کے حکم کی نفی کر دی ہے۔ لیکن اگر نمازی سمجھتا ہے کہ اس کی بھول چوک کی مقدار اس قدر ہے کہ اسے معتبر سمجھ کر سجدۂ سہو کرنا چاہیے، جبکہ وہ کیفیت احادیث میں بیان شدہ کیفیات سے مختلف ہو تو وہ درج حدیث پر عمل کر لے: سیدنا ثوبان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ((لِکُلِّ سَھْوٍ سَجْدَتَانِ بَعْدَ مَایُسَلِّمُ۔)) (ابوداود، ابن ماجہ) ہر سہو میں دو سجدے بعد از سلام کئے جائیں گے۔ بہرحال ہر نمازی کو چاہیے کہ مذکورہ بالا تمام صورتیں مستحضر کر لے، تاکہ نماز کے دوران کسی بھول چوک کی بنا پر سجدۂ سہو کے بارے میں اس کا فیصلہ بصیرت والا اور طریقۂ محمدی کے قریب تر ہو۔ ہم نے تنبیہ میں سیدنا مغیرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی جو حدیث ذکر کی ہے، اس سے معلوم ہوا کہ جو چیز کھڑے ہونے والے نمازی کو تشہد کی طرف لوٹنے سے روکتی ہے، وہ اس کا مکمل کھڑا ہونا ہے۔ اگر اسے مکمل کھڑا ہونے سے پہلے اپنی غلطی کا احساس ہو جائے، تو بیٹھ جانا ضروری ہے۔ اس مسئلہ میں بعض مسلک والوں نے یہ فرق پیش کیا ہے کہ اگر نمازی کھڑے ہونے کے قریب ہو تو کھڑا ہو جائے اور بیٹھنے کے قریب ہونے کی صورت میں بیٹھ جائے۔ یہ تفصیل جہاں بے دلیل ہے، وہاں اس حدیث کی مخالف بھی ہے۔ پس حدیث پر عمل کرو اور اس کو مضبوطی کے ساتھ تھام لواور لوگوں کی آراء کو ترک کر دو۔ جب حدیث آ جاتی ہے تو غور و فکر کی گنجائش ختم ہو جاتی ہے اور جب اللہ تعالیٰ کی نہر رواں ہو جاتی ہے تو عقل کی ندیاں باطل ہو جاتی ہیں۔