Blog
Books
Search Hadith

عصر کے بعد دو رکعتوں کا بیان

۔ (۲۰۶۸) عَنْ عَائِشَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا قَالَتْ: صَلَاتَانِ لَمْ یَتْرُکْھُمَا النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سِرًّا وَ لَا عَلَانِیَۃً رَکْعَتَیْنِ بَعْدَ الْعَصْرِ وَ رَکْعَتَیْنِ قَبْلَ الْفَجْرِ۔ (مسند احمد: ۲۵۷۷۶)

سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں : دو نمازیں ایسی ہیں کہ جنہیں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے خفیہ طور پرچھوڑا نہ ظاہری طور پر ، یعنی عصر کے بعد دو رکعتیں اور فجر سے پہلے دو رکعتیں۔
Haidth Number: 2068
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۲۰۶۸) تخریج: أخرجہ البخاری: ۵۹۲، ومسلم: ۸۳۵ (انظر: ۲۵۲۶۲)

Wazahat

فوائد:… اس باب کی احادیث سے ثابت ہوا کہ عصر کے بعد نماز پڑھنا درست ہے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خود بھی دو رکعتیں پڑھا کرتے تھے۔ سب سے پہلے اس ضمن مین یہ بات ذہن نشین کرنا ضروری ہے کہ جب تک سورج بلند نظر آ رہا ہو،اس وقت تک عصر کے بعد نفلی نماز پڑھی جا سکتی ہے، جن احادیثِ مبارکہ میں عصر کے بعد مطلق طور پر نماز پڑھنے سے روکا گیا ہے، درج ذیل حدیث کی روشنی میں ان کی تخصیص کی جائے گی: سیدناعلی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے ، وہ کہتے ہیں: ٰی ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَنِ الصَّلَاۃِ بَعْدَ الْعَصْرِ إِلاَّ وَالشَّمْسُ مُرْتَفِعَۃٌ۔ (ابوداود: ۱/۲۰۰، نسائی: ۱/۹۷، صحیحۃ:۲۰۰) یعنی: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے عصر کے بعد نماز پڑھنے سے منع فرمایا، الایہ کہ سورج بلندہو۔ اب ہم اس باب میں مذکورہ مسئلے پر بحث کرتے ہیں: نماز عصر کے بعد نفلی نماز پڑھنا اس وقت تک درست ہے، جب تک سورج بلند اور صاف نظر آ رہا ہو۔شیخ البانی ‌رحمتہ ‌اللہ ‌علیہ ‌ لکھتے ہیں: امام ابن ابی شیبہ نے سلف کی ایک جماعت سے نقل کیا ہے کہ وہ عصر کے بعد دو رکعات پڑھتے تھے، ان میں سیدنا ابو بردہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، ابو الشعثائ، عمرو بن میمون، اسود بن یزید اور ابووائل شامل ہیں۔ نیز محمد بن منتشر اور مسروق بھییہ نماز ادا کرتے تھے۔ رہا مسئلہ یہ کہ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اس نماز کی ادائیگی پر کیوں مارا کرتے تھے؟ تو یہ ان کا ذاتی اجتہاد تھا، جس کا تعلق باب سدّ الذریعۃ سے ہے۔ جیسا کہ حافظ ابن حجر نے (فتح الباری: ۲/ ۶۵) میںدرج ذیل دو روایات بیان کر کے اس کی وضاحت کی ہے۔ (أ) زید بن خالد کہتے ہیں: سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے مجھے عصر کے بعد دو رکعتوں کی ادائیگی پر سزا دی … … پس سیدنا عمر نے کہا: یَا زَیْدُ! لَوْلَا اَنِّیْ اَخْشٰی اَنْ یَّتَّخِذَھُمَا النَّاسُ سُلَّمًا اِلَی الصَّلَاۃِ حَتّٰی اللَّیْلِ لَمْ اَضْرِبْ فِیْھِمَا۔… اے زید!اگر مجھے یہ خدشہ نہ ہوتا کہ لوگ ان دو رکعتوں کو ذریعہ بنا کر رات تک نماز ادا کرتے رہیں گے، تو میں نے ان کی وجہ سے سزا نہیں دینی تھی۔ (مسند احمد: ۴/ ۱۵۵، مصنف عبد الرزاق: ۲/ ۴۳۱، ۴۳۲) اسی قسم کی روایت سیدنا تمیم داری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے بھی منقول ہے، سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان الفاظ کے ساتھ جواب دیا تھا: وَلٰکِنِّیْ اَخَافُ اَنْ یَاْتِیَ بَعْدَکُمْ قَوْمٌ یُصَلُّوْنَ مَا بَیْنَ الْعَصْرِ اِلَی الْمَغْرِبِ حَتّٰییَمُرُّوْا بِالسَّاعَۃِ الَّتِیْ نَھٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَنْ یُصَلِّیَ فِیْھَا۔… میں ڈرتا ہوں کہ تمھارے بعد جو لوگ آئیں گے وہ اس نماز کو عصر سے مغرب تک پڑھیں گے اور (بالآخر اس نماز کو) اس گھڑی میں لے جائیں گے، جس سے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے منع فرمایا ہے۔ (مسند احمد: ۴/ ۱۰۲) شریح کہتے ہیں: میں نے سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی نماز کے بارے میں سوال کیا؟ انھوں نے کہا: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ظہر کی نماز اور اس کے بعد دو رکعت سنت ادا کرتے، پھر عصر کی نماز اور اس کے بعد دو رکعت نفل پڑھتے۔ میں نے کہا: سیدناعمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تو عصر کے بعد والی دو رکعتوں کی وجہ سے منع کرتے اور پڑھنے والے کو سزاد یتے تھے، اس کی کیا وجہ ہے؟ انھوں نے کہا: سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ خود بھییہ دو رکعتیں پڑھتے تھے اور یہ بھی جانتے تھے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پڑھی ہیں۔ دراصل بات یہ ہے کہ تیری قوم کے لوگ کم سمجھ اور انجان ہیں،یہ نماز ظہر کی ادائیگی کے بعد عصر تک نفلی نماز ادا کرتے رہتے ہیں، پھر اسی طرح نمازِ عصر اد اکر کے (ان دو رکعتوں کی رخصت سے گنجائش نکالتے ہوئے) مغرب تک نماز پڑھتے رہتے ہیں، اس لیے عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان کو سزا دی اور بالکل درست کیا۔ (مسند السراج: ق ۱۳۲/ ۱) میں (البانی) کہتا ہوں: اس کی سند صحیح ہے، یہ سابقہ دو آثار کا قوی شاہد ہے، انتہائی صراحت کے ساتھ ثابت ہو گیا کہ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی دو رکعتوں سے منع کرنے کیوجہ دو رکعتیں نہیں تھی، جیسا کہ اکثر لوگوں کو یہ وہم ہوا ہے۔ سیدنا عمر کو یہ خطرہ تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ لوگ اس نماز کی ادائیگی میں اتنی تاخیر کر دیں کہ سورج زرد ہو جائے اورپھر اس کو کراہت کے وقت میں ادا کریں۔ خلاصۂ کلام یہ ہوا کہ عصر کے بعد دو رکعتیںادا کرنا مسنون ہے، بشرطیکہ سورج کے زرد ہونے سے پہلے ادا کی جائیں، سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا سزا دینا ان کا اجتہادی مسئلہ تھا، بعض صحابہ نے ان کی موافقت کی تھی اور بعض نے مخالفت، یعنییہ نماز ادا کرنی چاہیےیا نہیں؟ اس کے بارے میں صحابہ کرام میں بھی دو فریق پائے جاتے تھے، ایسی صورت میں سنت کی طرف رجوع کرنا پڑے گا۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے قول سے بھی نمازِ عصر کے بعد کی دو رکعتوں کا ثبوت ملتا ہے، وہ کہتے ہیں: میں بھی اپنے ساتھیوں کی طرح نماز پڑھتا ہوں، کسی کو دن یا رات کی کسی گھڑی میں نماز پڑھنے سے نہیں روکتا، ہاں اتنا کہوں گا کہ طلوع آفتاب اور غروب ِ آفتاب کے وقت نماز نہ پڑھی جائے۔ (بخاری: ۵۸۹) سیدنا ابوایوب انصاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بھییہی مسلک تھا، وہ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی خلافت سے قبل نماز عصر کے بعد دو رکعتیں پڑھتے تھے، لیکن جب آپ خلیفہ بنے تو انھوں نے یہ نماز ترک کر دی، جب سیدناعمر فوت ہو گئے تو انھوں نے ان دو رکعتوں کی ادائیگی شروع کر دی۔ جب ان سے وجہ پوچھی گئی تو انھوں نے کہا: سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ان دو رکعات کی وجہ سے لوگوں کو سزا دیتے تھے، اس لیے میں نے ان کو چھوڑ دیا تھا۔ ابن طاوس کہتے ہیں: میرے باپ طاوس تابعی بھی ان دو رکعتوں کو نہیں چھوڑتے تھے۔ (مصنف عبد الرزاق: ۲/ ۴۳۳، اس اثر کی سند صحیح ہے) اب ہم یہ کہنا مناسب سمجھتے ہیں کہ جو اہل سنت سنتوں کو زندہ کرنے اور بدعتوں کا قلع قمع کرنے کے حریص ہیں، ان کو نماز عصر کے بعد ان دو رکعتوں کی ادائیگی کا التزام کرنا چاہیے، بشرطیکہ جب نماز عصر کو اس کے اول وقت میں ادا کیا جائے، (یایوں کہیے کہ جب تک سورج زرد نہ ہو۔) وباللہ التوفیق۔ (صحیحہ: ۲۹۲۰)